اے راہ حق کے شہید و وفاکی تصویرو
ستمبر65ء کی جنگ کے وقت میںکیپٹن تھا ۔65ء میں بھارت نے پاکستان پرحملہ کیا تو میں سٹاف کالج کوئٹہ میں کورس کرنے گیا ہوا تھا اور میری یونٹ سیالکوٹ کے محاذ پر تھی۔جنگ کی وجہ سے سٹاف کالج بند کردیا گیا اور ہماری مختلف جگہوں پر تعیناتی کردی گئی۔ میری پلٹن چونڈہ محاذ پر لڑائی کے لئے معمور ہوئی۔ میں چونڈہ کے محاذ پر 11 ستمبر کو پہنچا۔ کرنل محمد اکبر صدیق نے مجھے یونٹ کا کمپنی کمانڈر تعینات کیا۔ مجھ سے پہلے کمپنی کمانڈر کیپٹن عبدالوحید کاکڑ تھے ۔جب وہ شام کو زخمی ہو گئے تو پیچھے آگئے ۔اس وقت میں نے کرنل محمد اکبر سے کہا ’’سر!مہربانی کرکے مجھے کمپنی کمانڈر کی ذمہ داری سونپ دیں‘‘۔ 65ء کی جنگ مختلف محاذوں پر لڑی جارہی تھی۔ کہیں پے ٹینکوں کی ٹینکوں سے، کہیں پے انفینٹری کی انفینٹری سے اورکہیں پیادوں کی پیادوں سے لڑائی ہو رہی تھی۔چونڈہ کے محاذ پے انڈین فوج سے ہماری بھرپور لڑائی ہوئی۔سیالکوٹ سیکٹر میں سب سے پہلے ہندوستان کے ون آرمڈ ڈویژن نے بارڈر کراس کیا ۔ہمارا ون آرمڈ ڈویژن ملتان میں ہوتا ہے۔دشمن کی فوج نے سیالکوٹ کے چاروا اور سیاراجکے کے علاقے میں بارڈر کراس کیا ۔دشمن نے دو تین سو ٹینکوں کے ساتھ حملہ کیا جبکہ ہم دفاع میں صرف دوسو فوجی تھے جو مختلف جگہوں پر تھے۔جہاں لڑائی ہوئی وہاں پر تیس چالیس فوجی تھے اورانہوں نے بہت اچھی لڑائی لڑی۔ہمارے جوانوں نے بھارتی فوج کاکرنل اور فوجی مار دیئے۔ بہت سے فوجی ہم نے قیدی بھی بنا لیے تھے۔پھر ہم نے بھی وہاں پر 25کیلولری کے ٹینکوں، انفینٹری اور کچھ پیادوں کو بھیجا کہ ان کو روکو۔بھارتی فوج جو آگے آچکی تھی انہوں نے اس کو چار پانچ میل پیچھے دھکیل دیا۔ پھر ہماری مزید انفینٹری آگئی۔ ہم نے دفاع لے لیاتو بھارتی فوج نے بھی دفاع لے لیا۔میرے خیال میں دنیا میںکسی اور جگہ ٹینکوںاتنی زبردست جنگ نہیںہوئی جتنی بڑی جنگ چونڈہ کے محاذ پر ہوئی تھی۔اس محاذ پر ہر روز لڑائی ہوتی تھی۔چونڈہ کے محاذ پر سب سے بڑی لڑائی ہوئی جو فیصلہ کن لڑائی تھی۔اس سے پہلے بھی فیصلہ کن لڑائیاں ہو رہی تھیں جس میں ہمیں فتح حاصل ہو رہی تھی۔ مثلاً ہماری پلٹن آرمڈکور کی یونٹ 25 کیلولری نے 8ستمبر کو ہندوستان کے ٹینکوں کے ساتھ اورآرمڈکورکی یونٹ گریژن کیلولری نے15ستمبر کو ٹینکوں کی ٹینکوں کے ساتھ لڑائی کے وقت بہت اچھے کارنامے انجام دیئے تھے۔مختلف محاذوں پر ہماری آرمی نے بہت اچھی کارروائی کی۔پاکستان ایئرفورس ہمیں بہت اچھی مدد دے رہی تھی۔ جب دشمن کے جہاز آتے تھے تو ہمارے جہاز ان کو وہیں سے بھگا دیتے تھے۔چھ ستمبر 1965 ء کی جنگ ہم نے چونڈہ خاص گائوں جو ٹائون ہے اس کے اردگرد دفاع لیا ہوا تھا اور ہندوستان اس دفاع کو توڑ کر چونڈہ پر قبضہ کر نا چاہتا تھا۔بھارتی فوج 8ستمبر سے لے کر سیز فائر ہونے تک چونڈہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتی رہی۔بھارتی فوج گائوں کے جس کونے سے بھی حملہ کرنے کی کوشش کرتی ، ہمارے جوابی حملے سے وہ بھاگ جاتے تھے۔ اس گائوں سے آدھ میل کے فاصلے پر ہماری ایک پلٹن اور اس سے کچھ فاصلے پردوسری پلٹن دفاع کررہی تھی۔ہمارے پاس چونڈہ کے ریلوے سٹیشن کا علاقہ تھا۔اس میں ہم نے اپنی کمپنی لگائی ہوئی تھی جب آٹھ دس دن لڑائی کو گزر گئے تو ہندوستان نے فیصلہ کیا کہ وہ آرمڈ ڈویژن سے چونڈہ پر قبضہ تو نہیں کر سکے اس لیے اب چونڈہ پر حملہ کرنے کی ذمہ داری نمبر چھ ماونٹین انفینٹری ڈویژن کو سونپی جائے کیونکہ ڈویژن میں فوجی زیادہ ہوتے ہیں جبکہ آرمد ڈویژن میں ٹینک زیادہ ہوتے ہیں۔انفینٹری ڈویژن بھارت نے چینیوں سے پہاڑوں میں لڑنے کے لیے تیار کی تھی۔ہندوستان نے 16ستمبر کو چونڈہ پر قبضہ کا ٹاکس انفینٹری ڈویژن کو دیا اور انہوں نے 16ستمبر کو ہی حملہ کرنا تھا جو کسی وجہ سے نہ کرسکے ۔ پھر انہوں نے 17ستمبر کو حملہ کرنے کا فیصلہ کیا مگر اس روز بھی انہوں نے حملہ ملتوی کردیا۔ پھر 18ستمبر کو پورے ڈویژن نے (ڈویژن میں 15ہزار لوگ ہوتے ہیں) چونڈہ پر حملہ کیا۔ جن میں سے 5ہزار ہندوستانی فوج نے ہماری یونٹ کی پوزیشن پر حملہ کردیا۔ اس سے پہلے ہم پر ان کی نمبر20 راجپوٹ بٹالین نے رات کو حملہ جو کامیاب نہ ہوا، ہم نے ان کو پسپا کیا، ان کے بہت سے فوجی مارے گئے تھے۔ 65ء کی جنگ ہم نے ایک جذبہ کے تحت لڑائی اور ہندوستان کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ جنگوں کی تاریخ میں جنگ عظیم دوئم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی چونڈہ کے مقام پر لڑی گئی جہاں طاقت کے نشے میں چور بھارتی فوج چھ سو ٹینک لے کر پاکستان میں داخل ہوگئی تھی۔ پاک فوج کی زبردست جوابی کارروائی نے دشمن کے 45 ٹینک تباہ کر دیئے اور کئی ٹینک قبضے میں لے لیے تھے۔ پانچ فیلڈ گنیں قبضہ میں لے کر بہت سارے فوجی قیدی بھی بنائے گئے۔ جنگ کا پانسہ پلٹتا دیکھ کر بھارتی فوجی حواس باختہ ہوگئے اور ٹینک چھوڑ کرفرار ہونے لگے تو پاک فوج نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن کے علاقے میں کئی چوکیوں پر قبضہ کر لیا۔ اسی لیے چونڈہ کے مقام کو بھارتی ٹینکوں کیلئے ٹینکوں کا قبرستان کہا جاتا ہے۔19ستمبر کی صبح سویرے بھارتی فوج پسپا ہوکر واپس جارہی تھی۔ اس کے بعد چونڈہ کے محاذ پر لڑائی نہیں ہوئی اور سیز فائر 23ستمبر کو ہوا۔‘‘
٭٭٭٭٭