استاد شوق لکھنوی نے کہا تھا....
”جِس طرح کی تان سنئیے، اِک نرالا راگ ہے
اپنی اپنی ڈفلی ہے اور اپنا اپنا راگ ہے“
”ڈفلی“ چھوٹے ڈَف کو کہتے ہیں اور ”راگ“ گیت اور نغمے کو۔ ہمارے مختلف اُلخیال سیاستدان عوامی جلسوں اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی یہی مناظر پیش کر رہے ہیں۔ کلاسیکی موسیقی کے اساتذہ کے مطابق کُل 6 راگ ہیں اور 36 راگنیاں۔ اور ایک راگنی کا نام ہے ”بِلاول“۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور جناب آصف زرداری کے بیٹے کا نام بلاول رکھا گیا تو مَیں نے پیپلز پارٹی کے بانی رکن سیّد یوسف جعفری (جو پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد سیاست سے تائب ہوگئے تھے) سے بلاول نام کی وجہ تسمیہ پوچھی تو اُنہوں نے بتایا کہ ”بلاول زرداری قبیلے کے کسی پہنچے ہُوئے بزرگ کا نام تھا۔
3/4 نومبر کو مَیں نے مختلف نیوز چینلوں پر بلاول بھٹو زرداری کی تقریریں سُنی اور دیکھیں تو مَیں بہت محظوظ ہُوا۔ ایک دِن پہلے بلاول بھٹو نے سابق گورنر پنجاب مخدوم سیّد احمد محمود کو پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کا صدر مقرر کِیا تھا۔ گویا وہ مخدوم صاحب کی رسمِ رونمائی کےلئے نکلے تھے۔ مَیں تو اِس انتظار میں تھا کہ جناب قمر زمان کائرہ کو پنجاب پیپلز پارٹی کا صدر مقرر کرنے کا اعلان کِیا جائے گا۔ بلاول صاحب وفاق اور پنجاب کی حکومتوں پر خوب برسے۔ جِس پر ” شاعرِ سیاست“ نے کہا کہ....
”غصّہ بھریا اے زَبان وِچّ، ہے جمالو!
تِیر کسّیا اے، کمان وِچّ، ہے جمالو!
ویکھو رحیم یار خان وِچّ، ہے جمالو!
بلاول آگیا مدان وِچّ، ہے جمالو!
مخدوم سیّد احمد محمود فنکشنل مسلم لیگ کے صدر پیر پگاڑا سوم پیر صبغت اللہ راشدی اور سابق وزیراعظم سیّد یوسف رضا گیلانی کے "Cousin" ہیں۔ مخدوم صاحب کو پنجاب پیپلز پارٹی کا صدر کیوں نہیں بنایا گیا؟ مَیں نہیں جانتا؟
”مَیں گلِیاں دا رُوڑا کُوڑا“
مَیں جناب قمر زمان کائرہ کا اُس وقت سے فَین ہُوں جب مَیں نے جولائی2013ءمیں "Face Book" پر اُنہیں ایک نجی محفل میں پنجاب کے صوفی شاعر حضرت میاں محمد بخش کا کلام گاتے ہُوئے سُنا اور دیکھا، کلام ہے....
”مَیں کوہجی، میرا دِلبر سوہنا
اَیویں صاحب نُوں وڈیائِیاں
مَیں گلِیاں دا، رُوڑا کُوڑا
محل چڑھایا، سائِیاں!“
یعنی مَیں بد صورت ہُوں اور میرا محبوب خوبصورت۔ یہ صاحب (پروردگار) کی عظمت ہے۔ مَیں تو گلیوں کے کچرے کی طرح تھی لیکن میرے مُرشد نے مجھے محلوں میں رہنے کے قابل بنا دیا“۔ مخدوم سیّد احمد محمود اور جناب قمر زمان کائرہ دونوں خوبصورت انسان ہیں لیکن اُن کے مُرشد ان تو جناب آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری ہیں۔
جناب آصف زرداری نے ووٹ کی طاقت سے تختِ لہور (پنجاب) پر قبضہ کرنے کےلئے لاہور میں ”بُلٹ پروف بلاول ہاﺅس“ بنوایا تھا اور پنجاب کے ہر ضلع میں بلاول ہاﺅس بنانے کا وعدہ بھی کِیا تھا لیکن پورا نہیں کِیا۔ پیپلز پارٹی کے جیالے اب بھی کبھی کبھی یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ....
”بی بی ہم شرمندہ ہیں، تیرے قاتل زندہ ہیں“
پیپلز پارٹی ”تختِ لہور“ (تختِ رائے ونڈ) پر قبضہ کر لے تو شاید شرمندگی کا داغ دُھل جائے؟
انکل، چاچا اور تایا؟
محترمہ بے نظیر بھٹو پیپلز پارٹی میں عُمر میں بڑے جنابِ بھٹو کے ہر ساتھی کو "Uncle" کہا کرتی تھیں لیکن وزیراعظم منتخب ہو کر ہر انکل سے یہ کہنا شروع کر دِیا تھا کہ ”مَیں آپ کی چھوٹی بہن ہوں“۔ انگریزی زبان میں چچا، تایا، ماموں، خالو اور پھوپھا کو انکل ہی کہا جاتا ہے۔ لوئر مڈل کلاس کے بچے ”دودھ والا انکل“ ”سبزی والا انکل“ اور ”اخبار والا انکل“ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ بلاول صاحب اپنی والدہ صاحبہ اور والد صاحب کے ساتھیوں کو انکل کہہ کر ہی مخاطب کرتے ہیں اور اُن سے عُمر میں بڑے یا برابر مخالفین کو بھی۔ اردو کی ایک ضرب اُلمِثل ہے ”چچا بنا کر چھوڑنا“۔ یعنی بدلا لینا اور خوب سزا دینا۔ تقریباً دو سال پہلے بلاول صاحب نے کراچی میں ایک جلسہ¿ عام سے خطاب کرتے ہُوئے لندن باسی جناب الطاف حسین کو دھمکی دی تھی کہ ”انکل الطاف، اگر کراچی میں میرے (پیپلز پارٹی) کے کارکنوں کو کچھ نقصان ہُوا تو مَیں لندن میں آپ کا جینا حرام کردوں گا“۔ بلاول صاحب لندن گئے اور وہاں کئی مہینے رہے لیکن اپنے انکل کا جینا حرام نہیں کر سکے۔ اِس پر جناب آصف علی زرداری نے ایم کیو ایم کے اکابرین کو بتایا کہ ”بلاول میں ابھی پختگی پیدا نہیں ہُوئی، انشاءاللہ ہو جائے گی“۔
نومبر 2015ءمیں جناب عمران خان نے بلاول صاحب کو مخاطب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ”بے بی بلاول! نانا جی اور والدہ صاحبہ کی تصویریں سامنے رکھ کر سیاست نہیں کی جاسکتی۔ سیاست سِیکھنا ہے تو میرے پاس آﺅ“۔ جواب میں بلاول صاحب نے پہلی مرتبہ جناب عمران خان کو ”چاچا“ کہہ کر مخاطب کِیا اور کہا کہ ”چاچا عمران! مچھلی کو تیرنا نہیں سکھایا جاتا۔ سیاست کوئی کھیل نہیں ہے“۔ خان صاحب کی اِس غزل اور بلاول صاحب کے جوابِ آں غزل پر 19 نومبر کے میرے کالم کا عنوان تھا ”انکلز اور بڑے تایا عمران خان“۔ اِس لئے کہ خان صاحب عمر میں زرداری سے بڑے ہیں“۔
”بلاول راگنی اور دوسری راگنِیاں؟“
ڈہر کی (رحیم یارخان) کے جلسے میں بلاول صاحب نے عمران خان کو تایا نہیں چچا کہہ کر مخاطب کِیا اور کہا۔ چاچا عمران! آپ پیپلز پارٹی کو "Minus One" یعنی میرے بابا سائِیں کے بغیر چلانے کے بات کرتے ہیں تو مَیں بھی آپ کی پارٹی میں "Minus One" کی بات کروں گا اور پھر شیخ رشید احمد آپ کی پارٹی کے چیئرمین بن جائیں گے“۔
بلاول صاحب نے اتنی بار عمران صاحب کو چاچا کہا کہ گویا ”چاچا“ خان صاحب کی چڑ ہے۔ عمران خان کی تاریخ پیدائش 5 اکتوبر 1952 ءہے اور زرداری صاحب کی 26 جولائی 1955ءاِس لئے اگر بلاول صاحب انہیں تایا کہہ کر مخاطب کرتے تو بات آگے نہ بڑھتی۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی تاریخ پیدائش 25 دسمبر 1949۔ اِس لئے میاں صاحب بلاول صاحب کے بڑے تایا ہُوئے لیکن بلاول صاحب نے انہیں وزیراعظم صاحب یا میاں صاحب! کہہ کر مخاطب کِیا“۔
وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے اپنی راگنی میں کہا کہ ”برخور دار! اپنی مَنجی تھلّے ڈانگ وِی پھیر کے ویکھو!“۔ خواجہ محمد آصف اور چودھری طلال نے کہا کہ ”چچا (عمران خان) اور بھتیجا (بلاول بھٹو) اکٹھے ہو کر بھی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتے“۔ بلاول صاحب نے اپنی راگنی میں جناب عمران خان کے مرحوم والد جناب اکرام اللہ نیازی کی بات کی تو خان کے ساتھی بہت دور تک چلے گئے۔ بلاول صاحب نے اپنی راگنی کے رنگ اور انگ اِس طرح بکھیرے کہ مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے کئی بیان باز لیڈروں نے اپنی اپنی راگنی گانا شروع کر دی۔ جناب عمران اسماعیل نے کہا کہ ”پیپلز پارٹی ”پاپا، پُھپھو، پُتّر پارٹی“ بن گئی ہے۔ دراصل سیاسی راگنی/ راگنِیاں گانے کےلئے ”راگ وِدّیا“ (علمِ موسیقی) اور ”راگ مالا“ (راگ کے اصولوں کی کتاب) سے واقفیت ضروری نہیں ہے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024