چینی منڈیوں تک ڈیوٹی فری رسائی واقعی بڑی خبر ہے۔ 313 پاکستانی مصنوعات چینی صارفین کے استعمال میں آئیں گی لیکن زیادہ بڑی خبر شہباز شریف کا چیئرمین پی اے سی کا عہدہ چھوڑنا اور لندن میں طویل قیام ہے۔ ن لیگ نے رانا تنویر حسین کو چیئرمین پی اے سی ا ور خواجہ آصف کو پارلیمانی لیڈر مقرر کیا ہے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی کوششیں رنگ لائیں اور مہمند ڈیم کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا۔ مہمند ڈیم کا آغاز 12 لاکھ 93 ہزار ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش سے ہو گا۔ 309 ارب روپے لاگت سے 5 سال میں تکمیل اور یومیہ 800 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی۔ پی ٹی آئی کی طرح ن لیگ میں بھی شکایتوں کے انبار لگے ہیں۔ جاوید لطیف کے نزدیک پارٹی میں اسٹیبلشمنٹ حکومت مخالف تحریک نہیں چاہتی، سعد رفیق کی نظر میں ان کا کیس لڑنے والا کوئی نہیں۔ کامران مائیکل کو کوئی ملنے نہ گیا۔ حنیف عباسی بیچارہ اکیلا لڑتا رہا۔ خواجہ آصف کے خیال میں عہدوں کی تقسیم حالات اور دبائو کی وجہ سے کی۔ خواجہ آصف کی نامزدگی نواز شریف کے مئوقف کی جیت نظر آ رہی ہے۔ کیا شریف قیادت کی ن لیگ پر گرفت کمزور ہو رہی ہے۔ دیکھنا ہے کہ کیا شہباز شریف اپوزیشن لیڈر کا عہدہ بھی اچانک سرنڈر کر دیں گے؟ ڈیل یا ڈھیل کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے۔ جس کی پردہ داری ہے نواز، مریم جلد باہر چلے جائیں گے۔ وفاق کی سندھ کی سیاست میں دلچسپی بڑھ گئی ہے۔ سیاسی جمود کیسے ٹوٹے گا؟ فی الحال نواز شریف کے لیے نرم گوشہ کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ ضمانت میں توسیع ، بیرون ملک علاج کی درخواستیں مسترد ہو چکیں ۔ ن لیگ کی تنظیم نو میں وفاداروں کو جماعتی عہدے مل گئے ہیں۔ گورنر سٹیٹ بینک اور چیئرمین ایف بی آر کی چھٹی ہو چکی ۔ رانا تنویر بطور چیئرمین پی اے سی حکومت کے لیے ناقابل قبول ہیں۔ شہباز شریف داماد بیٹے سمیت لندن میں ہیں۔ نواز شریف کے فرزندان مستقلاً لندن کے باسی ہیں۔ عمران خان کہتے ہیں چاہے کرسی چلی جائے این آر او نہیں ہو گا۔ شہباز شریف کون سے این آر او کے تحت لندن میں ہیں۔ ڈالر ہی ساتویں آسمان پر نہیں پٹرول 108 روپے لٹر ہونے والا ہے۔ کابینہ میں تبدیلیاں ہوں گی تو گویا دھیرے دھیرے سب ہی جائیں گے اور نئے چہرے آئیں گے۔ عمران خان کو اس کی پرواہ نہیں کہ لوگ ٹیکنو کریٹس کی کابینہ کو صدارتی نظام سے تعبیر کرنے لگے ہیں۔ وہ کہہ چکے ہیں جہاں سے اچھے کام کرنے والے ملے لائونگا۔ عمران خان نے سچ بیان کر دیا ۔ پارلیمنٹ میں ہر وقت فساد ہوتا ہے۔ اسمبلی جائوں تو گالیاں سننے کو ملتی ہیں۔ کیا یہی جمہوریت ہے؟ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی بحران ہے۔ کابینہ ردو بدل اور آئی ایم ایف شرائط پر پارلیمان کو کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ آئی ایم ایف کو 500 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔ 30 ہزار چنگ چی رکشے غیر قانونی قرار دئیے گئے ہیں۔ سٹی پولیس اور ایل ٹی سی کو غربت غریبی اور بے روزگاری سے کوئی مطلب نہیں۔ کینال روڈ پر بسوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ نصف لاہور کی آبادی کینال روڈ سے گزرتی ہے۔ چنگ چی غریبوں کا روز گار اور غریبوں کے لیے سستا سفر ہے۔ 30 ہزار چنگ چی رکشا والے اپنی بندش پر حکمرانوں کو برا بھلا کہنے اور بددعائیںدیتے ہیں۔ عوام بھی انہی کے ہم نوا ہوتے ہیں۔ ہیلمٹ پہنانا بھی ایک جبری عمل تھا۔ یہی عمل پھلوں اور سبزیوں کے تھوک اور پرچون فروشوں پر لاگو کیوں نہیں ہوتا۔ سیب 500 روپے ا ور کیلے 250 روپے درجن تک بیچے جائیں اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو ۔ عثمان بزدار اور عمران خان کا اعلان تو یہ ہونا چاہئے کہ غریبوں کو کسی بھی صورتمیں تنگ نہ کیاجائے ۔ ان کی زندگی آسان کی جائے، سارا دن غریب ہی تو سرکاری ہسپتالوں میں خوار ہوتے اور دھکے کھاتے ہیں۔ عوام عدالتوں میں تاریخیں بھگتنے والے وکیلوں کے پیچھے دوڑنے والے مظلوم اور غریب ہی تو ہوتے ہیں۔ ہر روٹ کے چنگ چی رکشے کا الگ رنگ ہو گا۔ ان مصیبتوں کی آخر کیا ضرورت ہے۔ کیا یہ بھی آئی ایم ایف کی شرائط ہیں یا نئے باب رشوت تعمیر کئے جا رہے ہیں۔ منظور شدہ چنگ چی رکشہ ڈرائیور کو موٹر کیب کا ڈرائیونگ لائسنس دینے کا فیصلہ ہوا ہے۔ یہ لائسنس ہی ہر چنگ چی والے کو درِ رشوت پر حاضری دینے پر مجبورکرے گا۔ مقامی حکومتوں کے باوجود کا کہیں پتہ نہیں۔ اُن کے کیا فرائض ہیں۔ ان کی کیا کارکردگی ہے۔ ان کے کیا اختیارات ہیں۔ صحت و صفائی اور مہنگائی کے سدباب میں ان کا کہیں بھی رول دکھائی نہیں دیتا۔ ایم این ا ے ، ایم پی اے حکمرانوں کے سیاسی جلسوں میں انہیں استعمال کرتے ہیں۔ اسی سے ان کی وفاداری وابستگی اور کارکردگی پر مہرتصدیق ثبت ہوتی ہے۔ 60 کی دہائی سے آج تک ہم مختلف انواع کے مقامی حکومتی نظام آ چکے ہیں پرویز مشرف نے بھی ان حکومتوں کا نقشہ پیش کیا تھا جو ان کی رخصتی کے ساتھ رخصت ہو گیا اور ڈپٹی کمشنر کا عہدہ انگریز دور کی آن شان کے ساتھ موجود ہے۔ بھٹو سولی چڑھے تو ان کا نیشنلائزیشن کا نظام ڈی نیشنلائز ہو گیا ۔ ہر آنے والا گزرے دنوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔ پیریڈ بدلتا ہے تو ٹیچر جانے والے ٹیچر کے Lesson پر ڈسٹر پھیر کر اسے مٹا دیتا ہے۔ سیاست میں بھی وائٹ بورڈ پر ڈسٹر پھیر دئیے جاتے ہیں۔ اورنج لائن پراربوں خرچ ہوئے تھے۔ اس لیے اس پر جھاڑن پھیرنا ممکن نہ تھا۔ مقامی حکومتیں بیوروکریٹس کی محتاج رہی ہیں۔ مالی وسائل اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان کے دفاتر تک لوگ طلاق خلع ، بچے کی پیدائش نکاح نامے اور موت کے اندراج کیلئے ہی جاتے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان نے سندھ کی تقسیم کا اعلان کر کے سیاسی طبل جنگ بجا دیا ہے۔ پیپلز پارٹی ، ن لیگ اور فاروق ستار ایک پیج پر آ گئے ہیں۔
دو کروڑ کی آبادی والے شہر میں دو ہزار کا جلسہ کرنے والے کس منہ سے ن لیگ پر تنقید کرتے ہیں۔ یوم تاسیس کے موقع پر پی ٹی آئی کا جلسہ بدنظمی کا شکار ہوا۔ خیر پختونخوا میں پرویز خٹک فیملی کے ایک ممبر لیاقت خٹک صوبائی وزیر بن گئے ہیں۔ پرویز خٹک کی وزارت داخلہ لینے کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ ایرانی سرحد پر باڑ سے بلوچستان میں بے روزگاری پھیلے گی۔ افغان سرحد کے مقابلے میں ایران کی سرحد کیساتھ سرحدی تجارت بالخصوص سستی ایرانی اشیاء پر لوگوں کا انحصار بہت زیادہ ہے۔ 1999ء سے 2004ء تک جاری رہنے والی خشک سالی میں ایران سے آنے والی اشیاء کی وجہ سے لوگوں کو بڑا ریلیف مل گیا تھا۔ آزاد تجارتی معاہدے سے ٹیکسٹائل اور زراعت سمیت 313 مصنوعات چین کو برآمد کی جا سکیں گی۔ پشاور ، کراچی ، ایم ایل ون مصنوبے کے تحت پشاور اور کراچی کے درمیان 1872ء کلومیٹر لمبے ٹریک کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ اگلے 5 سال میں مکمل ہو گا۔ معاشی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ خوف و ہراس اور بے یقینی کی فضا ہے۔ سرمایہ کاری اور ترقی کیلئے یہ فضا بدلنا ہو گی، سختی سے ٹیکس نیٹ نہیں بڑھے گا۔ ملک دشمنوں کیخلاف حکومت، فوج ایک پیج پر ہیں۔ مدرسوں کو قومی دھارے میں لانے سے قیمتی ٹیلنٹ ضائع ہونے سے بچ جائے گا۔ پشتون تحفظ موومنٹ پی ٹی ایم کیلئے چھوٹ ختم ہو چکی۔ فوج نے اس وطن دشمن تنظیم کا ہر پردہ چاک کر دیا۔ بھارتی فنڈنگ پر پلنے اور چلنے والی پی ٹی ایم کا یوم حساب شروع ہو چکا ہے۔
وفاقی حکومت نے این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو 1.8 کھرب روپے دئیے ہیں۔ 866.6 ارب پنجاب 441.8 ارب سندھ 290.4 ارب خیبرپختونخواہ اور 180.3 ارب بلوچستان کو دئیے گئے ہیں۔ اس سے ہٹ کر ساری باتیں ہیں۔ وعدے ہیں تسلیاں ہیں ہر کام پیسے سے ہوتا ہے۔ پرائمری سکول کی تعمیر نو دور کی بات اسکے لیے فلٹر کا صاف پانی اور ٹائلٹ بھی پیسے مانگتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ نابینا افراد کو سڑکوں پر نکلنے اور احتجاج کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ گنتی کے نابینا افراد کی داد رسی سے اللہ اور اس کے رسولؐ کی خوشنودی نصیب ہو سکتی ہے۔ جہاں پوری قوم کو معاشی حالات میں تبدیلی کی تسلی دی جاتی ہے۔ وہی تسلی ایک جملے میں نابینا افراد کو بھی دی جا سکتی ہے۔ پنجاب اسمبلی نے نئے بلدیاتی نظام کا بل منظور کیا ہے جس کے تحت بلدیاتی ادارے تحلیل ہو جائیں گے۔ ایڈمنسٹریٹرز مقرر ہوں گے۔ ایک سال میں نئے انتخابات ہوں گے۔ جس تیزی سے بل منظور کرانے کی کوشش کی گئی اس سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔ اراکان اسمبلی کے معاوضوں ا ور مراعات کا بل بھی غیر معمولی تیزی سے منظور ہوا تھا لیکن بلدیاتی نظام کے بل کی عاجلانہ منظوری نے اپوزیشن کو احتجاج پر مجبور کیا ار معاملہ عدالت میں لیجانے کا اعلان ہوا۔ پشنون تحفظ موومنٹ کی سرگرمیوں بارے فوجی ترجمان کے دوٹوک بیانیہ کے بعد افغانستان سے دہشگردوں کا حملہ سامنے آیا۔ 3 فوجی شہید 7 زخمی ہوئے۔ سرحد پر باڑ لگانے کے دوران نشانہ بنایا گیا۔ افغان زمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ پی ٹی ایم کی سرگرمیوں ا ور مطالبات کے پس منظر میں اس کے لیڈروں سے پوچھا جائے کہ وہ پاکستان کا حصہ ہیں یا افغانستان کا۔ کیا ریاست سے کوئی مقابلہ کر سکتا ہے؟ پی ٹی ایم ملک دشمن سرگرمیوں کے لیے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور افغان ’’این ڈی ایس‘‘ سے پیسہ لیتی ہے۔ یہ اچھی خبر ہے کہ ملک میں 30 ہزار دینی مدارس کے لیے ایسا نصاب تیار کیا جائے گا جس میں صرف اسلام اور دین کی تعلیم ہو گی، اشتعال انگیز مواد نہیں ہو گا۔ مدارس محکمہ تعلیم کے ماتحت ہوں گے۔ مدارس کا نصاب تیار کرنے میں اسلامی نظریاتی کونسل، وفاق المدارس اور ہر مسلک کے چوٹی کے علماء کا نصابی بورڈ تشکیل دیا جائے تاکہ مولانا فضل الرحمن یا ان کے ہم نوا برہمی کی بجائے ہم خیال ہونے کی طرف آئیں۔ ملکی سالمیت کے لیے ضروری ہے سکیورٹی فورسز اور پختون یک جان و دو قالب ہوں دہشت گردی اور عسکریت پسندی نے سب کچھ تباہ کر دیا ہے۔ تاریخ کی طویل اور مشکل ترین جنگ نے معیشت کو برباد کیا۔ متاثرین پر جذباتیت کا غلبہ ہے ۔ نقیب اللہ محسود کے کراچی میں قتل کے بعد پشتون تحفظ کا نعرہ وجود میں آیا جیسا کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے کو بار بار نشانہ بنایا جاتا ہے ا ور وہ ہر باردھرنا دیکر غصے کی آگ کو ٹھنڈا کر دیتے ہیں لیکن ہر بات کی کوئی حد ہوتی ہے۔ متاثرین جہاں کہیں بھی ہیں ان کے جذبات کو بھڑکانے کی بجائے تسکین دینا ضروری ہے لیکن وطن دشمنوں کے لیے کوئی نرمی کوئی معافی کی گنجاش نہیں ۔ پاکستان ہر صورت میں پہلے ہے، سکیورٹی فورسز پر حملہ اس بات کا اظہار ہے ک ہ دشمن ایجنڈے سے ہٹنے کو تیار نہیں، بھارت کی ’’را‘‘ اور افغان این ڈی ایس کبھی نہیں چاہیں گی مغربی بارڈر پر امن ہو، افغانستان میں ٹی ٹی پی کے دہشت گرد بھارت کا پراکسی بازو بنے ہوئے ہیں۔ پی ٹی ایم کے خلاف تمام ثبوت پارلیمان کے سامنے پیش کر دئیے جائیں۔ قبائلی علاقوں کے اندر اٹھنے والی عوامی تحریک اغفان انتظامیہ اور بھارتی سرکار کے بل بوتے پر چل رہی ہے۔ مسعود اظہر کو عالمی دہشتگرد قرار دے دیا گیا ہے۔ چین نے بھی فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی مزید مخالفت نہیں کرے گا۔ اس بات سے ہماری خارجہ پالیسی کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔ ہماری کسی بات میں اتفاق رائے نہیں ہے۔ 18 سال سے کم عمر شادی کے خلاف رمیش کمار کے بل پر حکومت کے ارکان کی رائے تقسیم ہو گئی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل پہلے ہی اس بل کو بنیادی اسلامی اقدار کے منافی قرار دے چکی ہے۔ قانون سازی سے پہلے معاشرے کو کم سنی کی شادی کے مقاصد سے آگاہ کیا جائے ۔ کم سنی کی شادی ایک سماجی مسئلہ ہے ، شرعی نہیں۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024