پیر ‘ 4 ربیع الاوّل 1435ھ 6 جنوری 2014ئ
پیر ‘ 4 ربیع الاوّل 1435ھ 6 جنوری 2014ئ
بیگم نسیم ولی خان نے نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کر دیا۔ یہ عمر تو ان کے آرام کرنے کی تھی مگر نجانے کیا سوچ کر انہوں نے میدان سیاست میں پھر کودنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک طویل اننگ کھیل کرنام کمانے کے بعد پھر اسی کوئے ملامت میں انہیں لانے والے یاد رکھیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ اپنے خاندانوں کے سامنے آنے سے بہت سے راز طشت از بام ہوتے ہیں اور مخالفین مزہ لوٹتے ہیں۔ اب اس وقت اسفند یار ولی جس طرح بیگم نسیم ولی خان کو کھڈے لائن لگایا تھا، سوچ رہے ہوں گے کہ کاش ایسا نہ کیا ہوتا۔ کیونکہ بہرحال بیگم نسیم ولی کے آنے سے بہت سے پرانے رہنما اور ساتھی اپنی سابق رہنما کی طرف لوٹ گئے تو اے این پی کو جو پہلے ہی خیبر پی کے میں شکست خوردہ ہے نقصان ہو گا لیکن اسفند یار بھی قسم کھائے بٹھے ہیں کہ صلح نہیں کریں گے تو جواب میں بیگم نسیم ولی بھی ....
غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا
کہتے ہوئے کمر بستہ ہو گئی ہیں۔ جبکہ اس عمر میں تو ہمارے ہاں خواتین اللہ لوک ہو جاتی ہیں اور پوتوں پوتیوں نواسیوں نواسیوں کے ساتھ ” لوٹ اے گردش ایام“ کے مطابق بچہ بن کر لڑتی جھگڑتی اور کھیلتی ہیں۔“ کہیں بیگم نسیم ولی میں بھی تو بچپن لوٹ نہیں آیا کہ وہ بھی لڑنے جھگڑنے نکل پڑی ہیں۔
٭....٭....٭....٭....٭
گورنر نے زمین دینے کا وعدہ کیا ہے ہسپتال ضرور بنواﺅں گی: میرا۔ آج کل شوبز سے تعلق رکھنے والے ہمارے فنکاروں میں جس طرح خوف خدا اور خدمت خلق کا جذبہ پیدا ہوا ہے۔ وہ جہاں بہت سے لوگوں کے لئے باعث اطمینان اور تسکین ہے اس کے ساتھ ہی حیرانگی کا باعث بھی کہ یہ کام ہمارے فنکار اپنی آمدنی یا بنکوں میں پڑی رقم سے کرنے کی بجائے حکومت یا عوام کے چندے سے ،خیرات سے کرنے کی توقع کیوں کرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ جیسے مخیر اور اہل دل حضرات بنا کسی مدد کے اپنے علاقوں میں مفت علاج کیلئے ڈسپنسری یا کلینک کھولتے ہیں، فری سلائی کڑھائی سکھانے کا مرکز بناتے ہیں، مفت تعلیم کیلئے سکول اور مدارس بناتے ہیں، مساجد بناتے ہیں۔ بعد میں لوگ اس کار خیر کو دیکھ کر اس میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور یوں ایک بڑا ادارہ بن جاتا ہے ایسی سینکڑوں مثالیں ہمارے سامنے ہیں مگر ہمارے فن کار بھی فلاحی کاموں کے لئے پوری فنکاری سے کام لیتے ہیں اور پہلے حکومت کے کنویں میں ڈول ڈالا جاتا ہے۔ پھر عشوہ و غمزہ و ادا کے ساتھ مخیر حضرات کے جیبوں کو ٹٹولا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں ہونے والے چیریٹی شوز پر اکٹھی ہونے والی رقم سے زیادہ خرچہ آ جاتا ہے اگر نام و نمود اور اس پبلسٹی مہم کے اخراجات بچا کر اپنی کمائی ملا کر میرا بھی کوئی چھوٹا ہسپتال بنا دیں تو دیکھیں گی کہ کچھ ہی عرصہ میں عوام خود اس میں تعاون کر کے حصہ ڈال کر اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیں گے۔ بس شرط یہ ہے کہ یہ ہسپتال پوش علاقوں میں اپنی رقم بمعہ سود واپس لینے کے خیال سے نہ بنایا جائے۔ یہاں کے لوگ اندرون و بیرون ملک اپنا علاج کرا سکتے ہیں۔ اس کی بجائے کسی پسماندہ اور غریب علاقے میں ”میرا ہسپتال“ قائم کر کے میرا دنیا و آخرت کی بھلائی سمیٹ سکتی ہیں۔
٭....٭....٭....٭....٭
پاکستان خطر ناک موڑ پر کھڑا ہے دہشت گردی کا مقابلہ نہ کیا تو حالات مزید خراب ہوں گے:محمود اچکزئی
دہشت گردی کیخلاف موجودہ حالات میں یکساں قومی سوچ کا پیدا ہونا خوش آئند امر ہے۔ محمود اچکزئی نے درست کہا ہے کہ ہمیں دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہوگا مگر یہ حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ جب بھی حکومت دہشت گردوں کیخلاف کوئی ایکشن لیتی ہے تو ہمارے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین فوری طورپر مذمتی بیانات اور ریلیوں کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔ اگر حکومت مذاکرات کرے تو بھی قابل مذمت نہ کرے توبھی اب ہم محمود خان سے ہی پوچھتے ہیں کہ آپ خود بتائیں کہ حکومت کیا کرے۔اب تو خیر سے بلوچستا ن میں آپ کی پارٹی بھی حکومت میں شامل ہے اسے چاہئے کہ وہ صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر کم از کم صوبہ بلوچستان میں ہی ہمسایہ ملک سے آنے والے دہشت گردوں اور اسلحہ و گولہ بارود کے خفیہ اڈے ختم کروائے تو کم از کم بلوچستان میں امن قائم ہوسکتا ہے جہاں دہشت گردی کی وارداتیں پہلے ہی بہت زیادہ ہیں اور یہ سب ہمارے پڑوسی کی مہربانی سے ہورہا ہے کیونکہ وہاں موجود غیر ملکی اڈے پاکستان کو غیر مستحکم کرکے اپنے مکروہ مقاصد حاصل کرناچاہتے ہیں اسلئے تو وہ وہاں ہمارے بھاگے ہوئے ” بلونگڑوں“ کو ہلا شیری دے کر ہمارے خلاف تیار کرتا ہے۔
٭....٭....٭....٭....٭
ذوالفقار علی بھٹو کا 85 واں یوم ولادت گزشتہ روز منایا گیا۔ابھی چند ماہ قبل کی بات ہے زرداری صاحب پورے 5 سال نہایت کروفر سے اسلام آباد کے صدارتی محل میں تشریف فرمارہے۔ پاکستان میں انکی جماعت برسر اقتدار تھی ۔سندھ، خیبر پی کے اور بلوچستان میں ان کے نام کا ڈنکا بجتا تھا کوئی مضبوط اپوزیشن بھی مقابلے پر نہیں تھی۔ایسے سنہری لمحات میں انہوں نے 5مرتبہ بھٹو صاحب اوربے نظیر بھٹو کا یوم شہادت و ولادت منایاگیا مگر کبھی انہوں نے اس ڈکٹیٹر کوعدالت کے کٹہرے میں لانے کی کوشش تک نہیں کی جن کو اب بھاگنے کا راستہ نہ دینے کے نعرے لگا رہے ہیں انکے دور میں تو ....
کتنی بنجر ہوئی فصل آوارہ
شہر چپ چاپ ہے بازار سمیت
والی کیفیت تھی۔ کاش ہمارے یہ نعرے لگانے والے بیانات جاری کرنے والے سیاستدان دودھ پینے والے مجنوں کی صف سے نکل کربھٹو کی طرح خون دینے والے مجنوں بن کر دکھائیں۔ کوچہ اقتدار سے ہٹ کر سوئے دار کی طرف بھی گاہے بگاہے نگاہ دوڑائیں تو انہیں اپنے قدوقامت کا اندازہ ہوجائے گا۔ آج بھٹو کویاد کرنے والے خود ان کے ساتھی اور جانثاران کے مشن کو پیغام کوبھول کر مال و زر سمیٹنے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ کہاں ہے وہ پیپلزپارٹی جسکی بنیاد روٹی کپڑا مکان کے نعرے پررکھی گئی ہے۔آج تو بھٹو شہید کی روح بھی اپنی پارٹی کا حشر دیکھ کر شرمندہ ہورہی ہوگی جس میں انکا ساتھ دینے والوں کی بجائے ان کے اور بے نظیر کے قاتلوں کا ٹولہ گھسا بیٹھا ہے۔
٭....٭....٭....٭