آرمی چیف کی دہشتگردی کے عوامل کی نشاندہی ‘ اسکے بلاامتیاز خاتمے کا عزم اور امریکی تحفظات کا اعادہ
دہشتگردی کے مکمل خاتمہ کیلئے پاکستان کا کردار پورے خلوص سے تسلیم کرنا ہوگا
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ دہشت گردی کیخلاف ہم پورے خلوص سے جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں اور اسکے خاتمہ کیلئے ہمارا عزم غیرمتزلزل ہے۔ ہم بلاشک و شبہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے خواہاں ہیں اور اپنی کارروائی اس وقت تک بغیر کسی امتیاز کے جاری رکھیں گے جب تک ہم دہشت گردی کی تمام شکلوں سے نجات حاصل نہیں کرلیتے۔ گزشتہ روز کراچی میں آٹھویں بین الاقوامی دفاعی نمائش ”آئیڈیاز 2014“ کے سلسلہ میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جنرل راحیل نے کہا کہ تمام تنازعات اور دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے ہمیں حقیقت پسندانہ کردار ادا کرنا ہوگا‘ خطے میں پائیدار امن کیلئے کشمیر و فلسطین کے مسائل کا حل ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملکی سکیورٹی ہمسایہ ممالک کے حالات پر بھی مبنی ہے‘ ہم پڑوسی ممالک سے بہترین تعلقات کے خواہاں ہیں۔ حالات کے ساتھ اب دفاعی ضروریات بھی تبدیل ہو رہی ہیں‘ ہمیں اپنے نظریات کے تحفظ کیلئے کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ غیرریاستی عناصر کی وجہ سے اندرونی سکیورٹی متاثر ہو رہی ہے‘ اگر ان عناصر پر قابو نہ پایا گیا تو صورتحال گھمبیر ہو سکتی ہے۔ انکے بقول این جی اوز اور ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی ملکی سکیورٹی کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ عوام کی حمایت سے ملک میں بغیر کسی امتیاز کے دہشت گردی ختم کر دی جائیگی۔
ملک اور عوام نے گزشتہ 12 سال کے دوران دہشت گردوں کے ہاتھوں جتنے بھاری جانی و مالی نقصانات اٹھائے ہیں‘ اسکے پیش نظر دہشت گردی کے ناسور سے مکمل اور مستقل خلاصی ہماری اپنی ضرورت بن چکی ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ ہماری سرزمین پر دہشت گردی کا ناسور امریکی جنگ میں ہمارے فرنٹ لائن اتحادی بننے کے ردعمل میں پروان چڑھا اور ڈرون حملوں سے دہشت گردی کیلئے مزید ردعمل پیدا ہوا یا مختلف مکاتب فکر کی حامل دینی تنظیموں کی پیدا کی گئی فرقہ ورانہ کشیدگی سے ملک میں پہلے ہی دہشت گردی کا عفریت منڈلا رہا تھا جس نے سسٹم اور ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کا ایجنڈا رکھنے والے انتہاءپسند عناصر کو دہشت گردی کے ذریعے اپنے مقاصد کی تکمیل کا موقع فراہم کیا۔ ہم ہر دو صورتوں میں دہشت گردی کے عفریت کی بھینٹ چڑھے ہیں اور دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر اب تک جاری امریکی ڈرون حملوں نے بھی ہماری دھرتی کو ادھیڑ اور ملک کے وقار و خودمختاری کو بٹہ لگایا ہے۔ اگر ہم اس وقت خود کو دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ کے جواز اور عدم جواز کی بحث میں الجھائیں گے تو اس سے ملک کو دہشت گردی سے نجات دلانے کا عزم کمزور ہو گا اس لئے ہی ملک کی سول اور عسکری قیادتوں نے دہشت گردوں کیخلاف بلاامتیاز اور فیصلہ کن جنگ کے آغاز کا فیصلہ کیا اور بالآخر اپریشن ضرب عضب کے نام سے اس سال جون میں شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کیخلاف شروع کی گئی جنگ اب کامیابی سے ہمکنار ہوتی نظر آرہی ہے جس میں ازبک‘ چیچن اور افغان باشندوں سمیت اب تک دو ہزار سے زیادہ دہشت گرد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ بھاری اسلحہ‘ جاسوسی کے آلات ‘خودکش جیکٹوں اور دہشت گردی کے دیگر لوازمات سمیت دہشت گردوں کے تمام اہم ٹھکانے بھی تباہ کر دیئے گئے ہیں اور متعدد اہم کمانڈروں کی ہلاکتوں سے عملاً دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ اگر اس جذبے‘ لگن اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ بغیر کسی قسم کے تحفظات کے یہ اپریشن بلاامتیاز جاری رکھا گیا تو جنرل راحیل شریف کے بقول عوام کی حمایت سے ملک میں دہشت گردی بغیر کسی امتیاز کے ختم کردی جائیگی۔
اگر دہشت گردوں کے ہاتھوں ہم دس ہزار کے قریب فوجی افسران اور جوانوں سمیت اپنے 60 ہزار کے قریب شہریوں کی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ملکی معیشت 70 ارب ڈالر سے زائد کے نقصان کے جھٹکے کھا کر تباہی کے دہانے پر کھڑی نظر آرہی ہے جبکہ دہشت گردوں کی جنونی کارروائیاں ہنوز جاری ہیں تو پھر ان دہشت گردوں کیخلاف کارروائی کے حوالے سے اچھے اور برے کی تمیز تو ہرگز نہیں کی جا سکتی‘ چنانچہ جس بھی شخص یا افراد نے جس بھی نیت اور ایجنڈے کے تحت ہتھیار بند ہو کر دہشت گردی کی سفاکانہ کارروائیوں میں حصہ لیا ہے اور وہ ابھی تک ہتھیار بند ہیں تو انہیں کچلنا حکومتی ریاستی اتھارٹی کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلہ میں اگر ماضی میں متضاد پالیسیاں اختیار کی جاتی رہیں اور کچھ انتہا پسند گروپوں کی سرپرستی کی گئی تو اس کا خمیازہ ہی ہم نے بدترین دہشت گردی کی صورت میں بھگتا ہے جبکہ ان پالیسیوں کے باعث ہی ہمارے ساتھ امریکہ کے بھی تحفظات پیدا ہوئے اور بھارت کے علاوہ سابق افغان صدر کرزئی کو بھی ہم پر ہزرہ سرائی کا موقع ملتا رہا۔ اگر شروع دن سے ہی بغیر کسی لگی لپٹی کے سوات‘ مالاکنڈ اور جنوبی وزیرستان اپریشن کو دہشت گردی کے مکمل خاتمہ پر منتج کیا جاتا تو شاید ہماری سرزمین پر امریکی ڈرون حملوں کی بھی نوبت نہ آتی جن کی اجازت دینے کا اعتراف آج سابق جرنیلی آمر مشرف خود کر رہے ہیں جن کے بقول انہوں نے صرف ایک ڈرون حملے کی اجازت دی تھی جبکہ دہشت گردی کی جنگ میں وائٹ ہاﺅس اور پینٹاگون میں ہمارے کردار کے حوالے سے پیدا ہونیوالے شکوک و شبہات نے آج تک ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا اور باوجود اسکے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دو ہفتے پر محیط دورہ¿ واشنگٹن کے دوران امریکی حکام بشمول امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان اور اسکی مسلح افواج کے کردار کی ستائش کر چکے ہیں اور انہیں ”بائنڈنگ فورس“ کا درجہ بھی دے چکے ہیں‘ پاکستان کیلئے امریکی فوجی امداد میں ایک سال کی توسیع کیلئے یہ شرط لگانا ضروری سمجھا گیا ہے کہ پاکستان کو امریکی وزیر دفاع کو یقین دلانا ہوگا کہ حقانی نیٹ ورک کی پناہ گاہیں ختم ہو گئی ہیں۔ اب جبکہ ملک کی مسلح افواج پوری جانفشانی کے ساتھ دہشت گردوں کیخلاف بلاامتیاز اپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں اور حقانی نیٹ ورک بھی اس اپریشن کی زد میں ہے‘ جس کے اہم کمانڈر دو روز قبل کے دتہ خیل اپریشن میں مارے گئے ہیں اور آرمی چیف بھی اپنے دورہ¿ واشنگٹن کے دوران امریکی حکام کو اپریشن ضرب عضب کی کارروائیوں سے آگاہ کرچکے ہیں جس کی بنیاد پر پاکستان اور امریکہ کے مابین انٹیلی جنس شیئرنگ کیلئے باہمی معاونت بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے تو اسکے بعد امریکہ کی جانب سے دہشت گردی کی جنگ میں ہمارے کردار پر کسی شک و شبہ کے اظہار‘ ہماری فوجی امداد مشروط کرنے یا ڈرون حملے جاری رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا جبکہ جنرل راحیل شریف امریکہ سے واپسی کے بعد دہشت گردی کے خاتمہ میں مزید پرعزم نظر آتے ہیں۔ انہوں نے دہشت گردی کے پس پردہ جن عوامل کی نشاندہی کی ہے اور پڑوسی ممالک کے کردار و رویوں کا تذکرہ کیا ہے‘ ہمارے ساتھ تحفظات رکھنے والے امریکہ کو یہ عوامل اور پڑوسیوں کے رویے بھی پیش نظر رکھنے چاہئیں‘ دہشت گردی سے نجات کی خاطر کشمیر و فلسطین کے تنازعات بھی طے کرانے چاہئیں اور بھارت کے توسیع پسندانہ جنونی عزائم سے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو لاحق ہونیوالے خطرات کے سدباب کیلئے بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان سارے عوامل نے ہی ہماری اندرونی سکیورٹی کو بھی نقصان پہنچایا ہے اور غیرریاستی عناصر کو پنپنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اگر امریکہ بھارت کی سرپرستی بھی جاری رکھے گا‘ نیٹو فورسز کی واپسی کے بعد افغانستان میں امریکی افواج برقرار رکھنے کا بھی متقاضی رہے گا اور ہمارے کردار پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کرتا رہے گا تو لازمی طور پر اسکے دہشت گردی کی جنگ پر منفی اثرات مرتب ہونگے اس لئے جس خلوص‘ لگن اور جانفشانی کے ساتھ پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردوں کیخلاف بلاامتیاز اپریشن کررہی ہیں‘ امریکہ کو بھی اسی خلوص کے ساتھ پاکستان کی معاونت اور اسکی مسلح افواج کی حربی ضروریات پوری کرنی چاہئیں ورنہ اس خطہ کو دہشت گردی سے مکمل نجات دلانے اور امن و آشتی کا گہوارا بنانے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔