تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے لاڑکانہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم سندھیوں کی رضامندی کے بغیر کالا باغ ڈیم ہرگز نہیں بنائینگے۔ پہلے سندھیوں کو راضی کریں گے‘ اس کے بعد کالا باغ ڈیم بنے گا۔ عمران خان نے اپنی تقریر کے ان الفاظ میں اپنی حب الوطنی کا ثبوت دے دیا ہے اور یہ بات ثابت کردی ہے کہ وہ بھی پاکستان کی بقاءکے اہم ترین منصوبے کو سیاست کی نذر کر رہے ہیں۔ اگر انہوں نے اپنی تقریر میں یہی بات کہنی تھی تو اس سے تو خاموش رہنا ہی بہتر تھا۔ اگر صحافیوں کے سوالات کے جواب میں اس طرح کی بات مجبوراً کی جائے تو بھی مناسب نہیں لیکن عمران خان نے تو اپنی تقریر میں باقاعدہ خود سے یہ بات کی ہے۔
اگست میں حکومت کےخلاف لانگ مارچ کے آغاز اور دھرنے سے اب تک تحریک انصاف کے رہنماﺅں کے بیانات میں ہی باہمی تضادات موجود ہیں۔ عمران خان کچھ کہتے ہیں اور اسی دن شاہ محمود قریشی اس کے برعکس بات کرتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی لیڈرشپ میں ہی تمام باتوں پر اتفاق نہیں ہے تو یہ آخر کس طرح سے قوم کی رہنمائی کرسکتے ہیں۔ عمران خان نے دھرنے کے آغاز پر بارہا واضح طور پر کہا کہ ہم وزیراعظم کا استعفٰی لئے بغیر نہیں جائینگے اور اسکے علاوہ کسی طور پر مذاکرات نہیں کئے جائینگے لیکن اسی روز شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم ہر وقت مذاکرات کیلئے تیارہیں اور وزیراعظم کے استعفٰی کے علاوہ بھی حکومت سے بات چیت کی جائےگی۔ اسی روز پارٹی پالیسی میں تضاد سامنے آگیاتھا۔ اسی طرح عمران خان کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے جاوید ہاشمی بھی پارٹی چھوڑ گئے۔
اب عمران خان نے جس روز پلان سی کا اعلان کرکے مرحلہ وار بڑے شہروں اور پھر پورے ملک کو بند کرنے کا اعلان کیا۔ اسی روز شاہ محمود قریشی نے صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کہا کہ ہم نے سڑکیں بند کرنے کا اعلان کیا ہے‘ کاروبار بند نہیں کیا جائےگا۔ اس طرح کے متضاد اعلانات کے بجائے تحریک انصاف کوچاہئے کہ ہر معاملے پر موثر مشاورت کریں اور تمام رہنما قوم سے ایک ہی بات کریں جس میں لیڈرشپ کے خیالات کے تضاد کی عکاسی نہ ہو۔ اس وقت تک کی صورتحال میں تو تحریک انصاف کی لیڈرشپ کی سوچ اور عمل میں کھلا تضاد سامنے آیا ہے جس کی وجہ سے عام لوگوں کی بہت بڑی تعداد جو پہلے ان سے لگاﺅ رکھتی تھی‘ آہستہ آہستہ ان کیخلاف ہوتی جارہی ہے۔
لاڑکانہ جلسے میں کالا باغ ڈیم مخالف تقریر سے قبل عمران خان کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے تھی کہ پنجاب کے عوام کالا باغ ڈیم کے مکمل حامی ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ ملک بھر کا تمام پڑھا لکھا اور باشعورطبقہ مکمل طور پر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی حمایت کرتا ہے جبکہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت صرف غیر ملکی ایجنڈے پر کام کرنیوالے چند مفاد پسند عناصر ہی کرتے ہیں جو منصفانہ انتخابات کی صورت میں عوام کی قطعی نمائندگی نہیں رکھتے اور پروپیگنڈے کے طور پر سندھ کے مظلوم غریب عوام کا نام لیکر پورے سندھ کو کالا باغ ڈیم مخالف باور کرایا جاتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر کالا باغ ڈیم سے متعلق ملک بھر میں ریفرنڈم کرادیا جائے تو 90% عوام کالا باغ ڈیم کی فوری تعمیر کے حق میں ووٹ دینگے۔عمران خان کی لاڑکانہ تقریر کے بعد انہیں پنجاب میں ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے کیونکہ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ بھی دیگر سیاستدانوں کی طرح پنجاب میں اور بات کرتے ہیں‘ سندھ میں اور بات کرکے صرف اپنی سیاست چمکارہے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ اہم ترین قومی منصوبے سے متعلق پارٹی کا واضح اور دوٹوک موقف ہو اور دنیا کے کسی بھی خطے میں جاکر پارٹی کا ہر شخص وہی بات کرے۔ اس بارے میں تحریک انصاف کو وضاحت کرنی چاہئے کہ وہ اقتدار میں آکر کالا باغ ڈیم تعمیر کرینگے یا نہیں؟ انہیں اپنی اصلاح کرنی چاہئے اور اس طریقہ کار سے اجتناب ضروری ہے کہ پنجاب میں جاکر کالا باغ ڈیم کے حق میں لمبی چوڑی تقریریں کرکے عوام کو بیوقوف بنانا اور سندھ میں آکر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو متنازعہ تسلیم کرکے نام نہاد ”اتفاق رائے“ کی ہی بات کرنا۔اس طرز سیاست سے قوم پہلے ہی عاجز ہے اور انہوں نے بھی اگر یہی طرز سیاست اپنایا تو پھر پیپلزپارٹی‘ نوازلیگ اور تحریک انصاف میںکوئی فرق باقی نہیں رہ جائیگا۔
ڈاکٹر شیرافگن نیازی کے بیٹے امجد خان نیازی نے بھی تحریک انصاف میں شمولیت سے قبل کالا باغ ڈیم کی مکمل حمایت کی شرط رکھی تھی کیونکہ انکے والد ساری زندگی کالا باغ ڈیم کی مکمل حمایت کرتے رہے ہیں اور ویسے بھی کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے ہی لوڈشیڈنگ سے نجات کیساتھ ساتھ مہنگی بجلی سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سستی بجلی اور وافر پانی سے ہی صنعت اور زراعت کو ترقی ملے گی اور مہنگائی میںکمی ممکن ہوسکے گی۔ صنعتوں کو وافر سستی بجلی کی فراہمی سے ہی نئی صنعتوں کا قیام ممکن ہوگا جس سے بے روزگاری میں کمی آسکتی ہے اور ملک میں بے روزگاری میں کمی سے یقینی طور پر بدامنی میں کمی آئیگی۔
پیپلزپارٹی نے ہمیشہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی لیکن بے نظیر بھٹو شہید نے اپنے دوسرے دور حکومت میں یہ بیان دیا تھا کہ ”قوم کو ”کالا باغ ڈیم“ کے نام سے الرجی ہوگئی ہے اس لئے کالا باغ ڈیم کے بجائے اس کا نام ”انڈس ڈیم“ رکھ کر تعمیرکا آغاز ہونا چاہئے“۔ بے نظیر بھٹو شہید بھی یہ سمجھ چکی تھیں کہ قوم کی خوشحالی کے لئے کالا باغ ڈیم کی تعمیر بہت ضروری ہے۔ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کے پنجاب کے عہدیداران کالا باغ ڈیم کی حمایت میں جبکہ سندھ کے صوبائی عہدیداران کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں بیان دیتے ہیں۔ نوازلیگ تو جب بھی اپوزیشن میں ہوتی ہے توکالا باغ ڈیم کی حمایت میں لمبی چوڑی تقریریں کی جاتی ہیں اور عوام کی حمایت حاصل کرکے اقتدار حاصل کرلیا جاتا ہے لیکن جب حکومت میں آجاتے ہیں تو کالا باغ ڈیم کے متعلق خاموش ہوجاتے ہیں یا بطور مجبوری ذکر کرنا بھی پڑے تو صرف اتنا کہا جاتا ہے کہ کالا باغ ڈیم ملکی مفاد میں ہے لیکن ”قومی اتفاق رائے“ کے حصول کے بعد ہی تعمیر ممکن ہوسکے گی۔ کالا باغ ڈیم پر سیاست و منافقت ہی ہوتی چلی آرہی ہے جسکے باعث قوم آج اندھیروں میں ڈوب چکی ہے۔
نوازلیگ تو تیسری بار حکومت میں ہے لیکن انکی اس بارے میں اصلاح شاید ناممکن ہوچکی ہے۔ عمران خان ابھی تک اقتدار میں نہیں آسکے لیکن ان کا طرز سیاست بھی اس اہم ترین قومی منصوبے پر منافقانہ ہے۔ قوم اس طرز سیاست سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہے اسی لئے عمران خان کو متبادل کے طور پر دیکھا جارہا ہے لیکن اگر عمران خان بھی لاڑکانہ جلسے جیسی احمقانہ تقاریر کریں گے تو پھر قوم تحریک انصاف سے بھی تبدیلی کی امید نہ رکھے بلکہ یہ سمجھا جائے کہ یہ بھی صرف عوام کو بے وقوف بناکر ووٹ لینے کیلئے اپنے بیان تبدیل کرتے ہیں اور ان کی کوئی حتمی اور واضح پارٹی پالیسی نہیں جس سے یہ قوم کے مسائل حل کرسکیں اور نہ ہی انہیں اتنا شعور ہے کہ آخر کس طریقے سے قوم کو مسائل کے گرداب سے نکالا جاسکتا ہے۔عمران خان کو اگر لاڑکانہ میں کالا باغ ڈیم سے متعلق بات کرنی ہی تھی تو یہ کہہ دیتے کہ بے نظیر بھٹو شہید کی تجویز پر عمل کرکے ہم کالا باغ ڈیم کا نام انڈس ڈیم رکھ کر تعمیر کا فوری آغاز کریں گے جس سے بے نظیر بھٹو شہید کے خواب کو بھی تعبیر ملے گی اور ملک بھی تاریکیوں سے نکل آئیگا۔ انڈس ڈیم کی تعمیر سے ملک میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا جس سے عوام کو 4 روپے فی یونٹ بجلی مل سکے گی۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024