1۔ عمران خان لاکھ میاں نوازشریف کو ضمیروں کا سوداگر‘ خائن ‘ آمر‘ شہنشاہ اور کذب بیان کہتے پھریں ہم ذاتی طور پر اِنہیں سادہ‘ خُوش فہم اور سہل پسند سمجھتے ہیں۔ بالفرض من جُملہ الزامات میں سے کوئی درست بھی ہے تو وہ بے ارادہ ہے۔ سادگی میں اس قسم کی حرکتیں اکثر سرزد ہوجاتی ہیں‘ اب اس سے بڑی معصومانہ حرکت اور کیا ہوسکتی ہے کہ میاں فضلی کے چکمے میں آکر آئین میں ایک ایسی ترمیم لانا چاہتے تھے جس کی رو سے یہ امیر المومنین بن جاتے۔ ان کے لئے یہ تصور ہی بڑا رُوح افزاءتھا کہ آرمی چیف اور چیف جسٹس کو بیک جُنبش قلم نکال باہر کیا جاسکتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح حضرت عمرؓ نے خالد بن ولید کو پابند سلاسل کیا تھا اور وہ قاضی کو بھی اس چھوٹی سی بات پر جھاڑ پلا دیا کرتے تھے کہ وہ ان کی آمد پر تعظیماً کھڑا کیوں ہوا تھا۔ آئین میں ترمیم تقریباً منظور ہوچکی تھی وہ تو بھلا ہو ممتاز قانون دان خالد انور کا جنہوں نے انہیں اس کے مُضمرات سے آگاہ کیا۔ مسودہ دیکھتے ہی وہ پھٹ پڑا۔ میاں صاحب کس الو کے پٹھے نے آپ کو یہ لغو مشورہ دیا ہے؟ پاس بیٹھے ہوئے مشیر پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ خالد انور تو قانون دان تھے اگر ہم جیسا کوئی کم علم انہیں خلفائے راشدین کی خوراک ہی بتا دیتا تو نوازشریف فی الفور تائب ہوجاتے‘ اختیارات کا پیالہ پانی پانی ہوجاتا۔ سری پائے‘ شب دیگ‘ نہاری اور دیسی مرغ کھانے والوں کو تو نانِ جویں کا تصور کرکے ہی اُبکایاں آنے لگتی ہیں۔
2۔ ایوانِ اقتدار سے باہر ہوتے ہی میاں صاحب پر چند تلخ حقیقتیں منکشف ہوئی ہیں۔ انہیں پہلی مرتبہ احساس ہوا ہے کہ تارے دن کو بھی نظر آسکتے ہیں اور تاریکی کے لئے لازم نہیں ہے کہ سورج غروب ہونے کا انتظار کرے۔ انہیں وہ تمام باتیں یاد آنے لگی ہیں جنہیں گزشتہ 35 برس تک طاق نسیاں میں ڈال رکھا تھا۔ پنڈی سے لاہور تک کا سفر ملک میں تو نہیں ان کی زندگی میں انقلاب لے آیا ہے۔ وزیراعظم ہاﺅس سے نکلنے کے بعد بھی انہوں نے ذہنی طور پر وہیں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ ہارون رشید کے دربار کی طرح ایک طلسماتی ماحول‘ غلاموں‘ کنیزوں اور درباریوں کی فوج ظفر موج ‘ اٹلی سے درآمد کئے گئے شینڈیسرز‘ وال ٹو وال پرشین کارپٹس‘ یخ بستہ کمرے درباری شاعر جو ہر روز ایک نیا قصیدہ لکھ کر لاتے ہیں۔ داستان گو جنہیں الف لیلیٰ کی طرح ہزار کہانیاں یاد تھیں‘ مشروبات اور ماکولات کا ایک کدہ ہذا‘ سفر کیلئے بُلٹ پروف گاڑیوں کا آرمیڈا‘ اڑنے کیلئے فلائنگ پیلسز (اڑن محل) واجپائی کی نقل کرتے ہوئے انہوں نے ایک مرتبہ پی آئی اے پر نیویارک تک عام مسافر کی طرح سفر کیا پھر عُمر بھر کیلئے تائب ہوگئے۔ گو برہنہ گُفتار نہیں ہیں لیکن پہلی مرتبہ انہوں نے مشورہ دینے والوں کیلئے ٹکسالی زبان استعمال کی.... عین ممکن ہے کہ یہ ”بن باس“ عارضی ثابت ہو۔ محترمہ کلثوم نواز کی جیت کی صورت میں Return of the Prodigal son بھی ہوسکتا ہے۔ عباسی کو چلتا کرنا چنداں مُشکل نہیں ہوگا۔
3۔ دوران سفر غُصے کے عالم میں میاں صاحب نے دو نعرے بیک وقت لگا دیئے ہیں‘ انقلاب اور ایک نیا عمرانی معاہدہ جو اس ملک کی تقدیر بدل دیں گے‘ مخالفین نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ ان کی غلط فہمیوں اور خُوش فہمیوں پر کڑی تنقید کی ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ گزشتہ تیس برس تک یہ اختیار کے ساتھ چمٹے رہے اس وقت تو راوی چین لکھتا تھا لیکن ایک جھٹکے نے ہی ان پر چودہ طبق روشن کردیئے ہیں اور اس قسم کی انہونی اور بے تکی باتیں کرنے لگے ہیں۔ سردار لطیف کھوسہ نے تو یہ تک کہہ دیا ہے انہیں انقلاب کے معنی ہی نہیں معلوم۔ سری پائے اور کھدیں کھانے والا انقلاب کا داعی کیسے ہوسکتا ہے؟ سردار صاحب کا تعلق چونکہ مخالف پارٹی سے ہے اس لئے ان کی بات کو من و عن نہیں مانا جاسکتا لیکن غیرجانبدار مبصرین کا بھی کہنا ہے کہ بادی النظر میں یہ دو Contentions ایک دوسرے کی ضد ہیں بالفاظ مگر They are untenable and mutually destructive عمرانی معاہدہ میں لوگ مِل کر افہام و تفہیم کے ذریعے زندگی گزارنے کا طریقہ وضع کرتے ہیں‘ کچھ قوانین بنائے جاتے ہیں‘ حقوق اور ذمہ داریوں میں ایک توازن پیدا کیا جاتا ہے گو آزادی انسان کا بنیادی حق ہے لیکن یہ مادر پدر آزاد نہیں ہوسکتی۔ ایک مشہور مقولہ ہے Where my nose begins.your liberty ends عمرانی معاہدہ کی ضرورت اس لئے پیش آٰئی کہ بقول Hobbes انسان کی زندگی Nasty brutish and short تھی۔ Locke اور فرنچ فلاسفر روسو نے اس تھیوری کو مزید آگے بڑھایا۔ اگر ہم میاں صاحب کا ذہن ٹھیک طرح سے پڑھ پائے ہیں یا نوازشریف صاحب سوشل کنٹریکٹ کے معانی ٹھیک طرح سے سمجھے ہیں تو ان کا مطلب سادہ الفاظ میں یہ ہے کہ نیا آئین بنایا جائے۔
4۔ یہ درست ہے کہ میاں صاحب تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم رہ چکے ہیں‘ دو دفعہ پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اتفاقاً نہیں ہوا اسے فلوک نہیں کہہ سکتے آخر ان میں سیاسی بصیرت ہوگی جبھی تو مخالفین کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ اس تمام عرصے میں کبھی بھی انہوں نے سوشل کنٹریکٹ کی بات نہیں کی۔ انقلاب کا ذکر سن کر تو یہ یوں بدکتے تھے جس طرح مردم گزیدہ آئینے سے ڈرتا ہے چونکہ ہر دو باتیں غیظ کے عالم میں کی گئی ہیں اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے معروضی حالات کو پیشِ نظر نہیں رکھا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اس مُلک میں آئین کا متفقہ طور پر بننا ایک معجزے سے کم نہیں تھا۔ مُلک دولخت ہوچکا تھا‘ قوم حالت سوگ میں تھی‘ نوے ہزار فوجی ہندوستان کی قید میں تھے۔ ان حالات مں بھٹو نے بڑی مشکل سے تمام سیاسی پارٹیوں ‘ مذہبی گروپوں اور دیگر طاقتوں کو یکجا کیا ایک پلیٹ فارم پر لاکھڑا کیا جس قسم کے حالات میں تمام معاشرہ طبقات میں بٹ چکا ہے‘ فرقہ واریت ہے‘ صوبائی عصبیت ہے‘ لسانیت ہے‘ دہشت گردی نے آکاس بیل کی طرح سارے مُلک کو اپنے شکنجوں میں جکڑ رکھا ہے جو لوگ کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیتے وہ بھلا نئے آئین پر کیسے متفق ہوں گے۔
5۔ انقلاب اپنی راہیں خود متعین کرتا ہے اس کی اپنی منطق ہے‘ یہ کسی عمرانی معاہدہ کو نہیں مانتا پتہ نہیں میاں صاحب مُلک میں کس قسم کا انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ کیا آپ موزے تنگ ہیں؟ خمینی ہیں‘ نیلسن منڈیلا کہلانا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ سہل پسند شخص ہیں۔ یہ درست ہے کہ آپ سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوئے اس کو میرے میں تو بدلا جاسکتا ہے‘ تیغ آبدار نہیں بن سکتی‘ انقلاب خُشک و تر میں تمیز نہیں برتتا۔ سیل رواں میں جھونپڑوں کے علاوہ بلندوبانگ عمارتیں بھی ڈوب جاتی ہیں اور ابتلاءمیں قارون کی دولت بھی کم پڑ جاتی ہے لہٰذا انقلاب کی باتیں نہ کریں یہ آپ کے حق میں اچھا نہیں ہوگا۔ اب بھی وقت ہے ہل من مبارز کا ورد کرنا چھوڑ دیں‘ مُشکل وقت کسی پر بھی آسکتا ہے آپ بھی اس دور ابتلاءسے کبھی نہ کبھی تو نکل جائیں گے۔ حقائق سے چشم پوشی نہ کریں حالات کی گرہیں ناخن تدبیر سے کھولیں۔ آپ کی واحد خوش قسمتی یہ ہے کہ اس وقت ملکی سطح پر کوئی لیڈر ایسا نہیں ہے جس کے پاس اکثریت ہو۔ عمران خان خود مشکلات میں گِھرے ہوئے ہیں‘ زرداری راندہ درگاہ ہیں‘ ق لیگ قیں قیں کررہی ہے کل کلاں آپ اقتدار میں نہ بھی ہوئے تو کوئی دوست یار مونس و غمخوار اقتدار میں آکر آپ کو Bail out کرسکتا ہے۔ یہ کوئی راز نہیں ہے نوشتہ دیوار کو ‘ صبر‘ سُکون اور تحمل سے پڑھیں!