برطانوی وزیراعظم سے اُسکے اپارٹمنٹ کی تعزین و آرائش پر خرچے کی منی ٹریل طلب !
گزشتہ سے پیوستہ
یہ افواہیں ایک برس سے گردش میں تھیں کہ وزیراعظم کی طرف سے اپنے اختیارات کا ناجازء استعمال کرتے ہوئے پارٹی فنڈ کوذاتی اپارٹمنٹ کی Renovation کیلئے استعمال کیا ۔ بورس جانسن کی مالی استعداد سے آگاہ برطانوی شہری اور اپوزیشن جماعت والے سمجھتے تھے کہ ان کے وزیراعظم کے پاس اتنا سرمایہ یا آ مدن کے ذرائع نہیں جس سے وہ اپنے گھر کی مرمت کرانے کے بعد اسے جدید گھریلو سامان سے آراستہ کرسکے۔ افواہوں کا یہ سلسلہ سال پہلے اسی وقت شروع ہوگیاتھا جب بورس جانسن نے Dowing Street میں اپنے Flatپر کام کا آغاز کیا۔
بعد ازاں ان افواہوں میں تیزی آتی گئی ۔ گزشتہ ہفتے صحافیوں کے سوالات پر بورس جانسن نے کہا تھا کہ فی الحال اس طرح کی لغویات میں پڑنے کی بجائے حکومت اور اپوزیشن کو اپنی ساری توجہ برطانیہ میں کرونا وبا کے تدارک پر مبذول رکھنی چاہیے کیونکہ برطانوی عوام توقع رکھتے ہیں کہ حکومت وبا کی اس مشکل صورت حال میں ان کے تحفظ کو یقینی بنائے گئی۔ جس پر بورس جانسن کے مخالفین نے بیان دیا کہ وہ وزیراعظم کو کرونا وبا اس سلسلے میں حکومتی اقدامات کے پیچھے چھپنے نہیں دیں گے۔ پچھلے ہفتے ہی بورس جانسن کے Flatکے سلسلے میں اس کے ایک سابق چیف ایڈوائزر Dominc Cummings نے بھی تحقیقات کا مطالبہ کردیا ۔ اس کا بیان اخبارات میں رپورٹ ہوا تو ساتھ ہی کچھ ایسے حقائق بھی Leak ہوکر اخبارات میں شائع ہوگئے جس سے بورس جانسن پر الزامات کومزید تقویت ملی ۔ جس کے بعد ذہنی دبائو کی حالت میں یا الزمات سے فرار کیلئے بورس جانسن نے کرونا وبا کے سلسلے میں تیسرے لاک ڈائون کی بابت پوچھے گئے سوال پر کہہ دیا کہ وہ مزید ہزاروں اموات قبول کر لیں گے لاک ڈائون نہیں لگائیں گے۔ اس جواب نے عوامی سطح پر ہیجان اور غصہ برپاکردیا، حکومت کی طرف سے اس صورت حال پر قابو پانے کیلئے 28اپریل کو منعقد کئے گئے پارلیمنٹ کے اجلاس میں اپوزیشن نے بورس جانسن کو اپارٹمنٹ پر اخراجات کی تفصیل سامنے لانے کیلئے سوال کیا تو بورس جانسن نے غصے میں آکر اپنے Flatپر اٹھنے والے اخراجات کی بابت کیے گئے سوال کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کرونا وبا پر بات کرنا چاہیے لیکن اپوزیشن والے بورس جانسن سے ’’منی ٹرائل‘‘دکھانے پر بضد رہے۔
اب جبکہ برطانوی اپوزیشن کے علاوہ میڈیا بھی بورس جانسن سے اس کے گھر پر کئے گئے اخراجات کی تفصیلات کے حوالے سے مطالبے میں شامل ہوگیا ہے اور اور بتایا جارہا ہے کہ بورس جانسن نے اپنے Flatپر 80ہزار پونڈز سے 2لاکھ 80ہزار پونڈ ز کا خرچہ کیا ہے اور یہ بھاری رقم برسراقتدار Conservative پارٹی کے کاروباری Doners سے حاصل کی گئی۔ جس پربرطانیہ میں سیاسی جماعتوں کے مالی معاملات پر نظر رکنے والے Electrorial Commission نے عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے برسر اقتدار جماعت سے جواب مانگ لیا ہے کہ کس قانون کے تحت سیاسی طور پر ملنے والے فنڈز کو وزیراعظم نے اپنے ذاتی مقصد کیلئے استعمال کیا ۔ قبل ازیں ڈیوڈ کیمرون سمیت برطانیہ کے بہت سے سیاستدان کرپشن یا مالی فوائد حاصل کرنے جیسے الزامات کے بعد از خود عہدہ چھوڑنے کی روایت رکھتے ہیں۔ اب بورس جانسن پر لگائے جانے والے الزامات کا کیا نتیجہ نکلتا ہے یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ممکن ہے اسے اقتدار چھوڑنا پڑے، لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ برطانیہ اپنے ملک میں رائج ’’کرپشن فری سیاست‘‘ کے ثمرات سے دنیا کے ان ترقی پذیر یا پس مانندہ ملکوں کو وہاں سے لوٹی ہوئی قومی دولت واپس بھیجنے کا اصولی فیصلہ کب کرتا ہے ۔تاکہ وہاں کے عوام برطانیہ کے ان سنہری جمہوری اصولوں سے استفادہ کرسکیں جو برطانوی عوام کو حاصل ہیں۔