چیف جسٹس نے صحافیوں پر تشدد کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیدیا
اسلام آباد (صباح نیوز + نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ نے گزشتہ روز صحافیوں پر پولیس تشدد کے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیتے ہوئے سیشن جج سہیل ناصر کو معاملے کی انکوائری سونپ دی۔ عدالت نے کہا کہ تمام فریقین انکوائری کمشن کے روبرو پیش ہوں اور سیشن جج انکوائری کرکے 10 روز میں رپورٹ دیں۔جمعہ کوسپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں صحافیوں پر تشدد کے معاملے کی سماعت ہوئی جس کے سلسلے میں آئی جی اسلام آباد سلطان اعظم تیموری عدالت میں پیش ہوئے۔آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ شہر میں دفعہ 144 کا نفاذ ہے۔ ریلی کے لیے این او سی لینا قانونی تقاضا ہے۔ پولیس نے صحافیوں کوریڈ زون میں جانے سے منع کیا۔چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد سے استفسار کیا کہ کیا صحافیوں نے پتھر پھینکے کوئی گملا توڑا؟ اس پر آئی جی نے بتایا کہ ڈی چوک پر صحافیوں نے پولیس حصار توڑنے کی کوشش کی، محکمہ پولیس صحافیوں کی عزت کرتا ہے۔ پولیس کی جانب سے بھی واقعے کی انکوائری کروائی جائے گی۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ پولیس کا موقف یہ ہوگا کہ ریڈ زون میں جانے کی اجازت نہیں۔ صحافیوں کے پاس کوئی لاٹھی یا غلیل تونہیں تھی؟ ریڈ زون میں کس قانون کے تحت احتجاج کی اجازت نہیں؟ ریڈ زون میں کس کو احتجاج کی اجازت ہے؟عدالت نے حکم دیا ڈپٹی کمشنر اسلام آباد دفعہ 144 کے تسلسل کے ساتھ نفاذ کی وضاحت دیں۔ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے، حکام کو اپنے اختیارات کے غلط استعمال کا حق نہیں۔ دفعہ 144 نافذ کرکے انتظامیہ بھول گئی۔ ریڈ زون میں کیا صبح 5 لوگ ایک ساتھ واک کر رہے ہوں تو انہیں بھی پکڑا جائے گا دفعہ 144کلونےل قانون ہے۔ صحافیوں کا احتجاج پرامن تھا، پرامن احتجاج یا خواتین پر ہاتھ اٹھانا مناسب نہیں ہے، بہنوں کا احترام معلوم نہیں کدھر چلا گیا ہے۔چیف جسٹس نے معاملے کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے سیشن جج سہیل ناصر کو معاملے کی انکوائری سونپ دی۔عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ تمام فریقین انکوائری کمشن کے روبرو پیش ہوں اور سیشن جج انکوائری کرکے 10 روز میں رپورٹ دیں۔
صحافی تشدد