ادب و صحافت کا حسین امتزاج: تیری بکل دے وچ چور
با بابلھے شاہ اور بابا فرید جیسے برگزیدہ بزرگوں کا بلند پایا شاعرانہ کلام گئے دنوں کی داستان بن کے دل ودماغ سے محو ہوا ہے نہ ہی زبانوں سے اترا ہے۔اس کلام سے جب بھی پڑھیں یا سنیں تو روح تازہ ہوجاتی اور ہر دور میں یہی لگا کہ ان ہستیوں نے آج کے دور کے بارے میں لکھا ہے۔آج بھی ان کی شاعری معروضی حالات پر منطبق نظر آتی ہے۔ میرے سامنے بابا فرید کی نگری پاکپتن کے باسی جناب سعید آسی کی کتاب”تیری بکل دے وچ چور“ہے اور بلھے شاہ کا وہ کلام بھی یاد آرہا ہے جس کے ایک مصرعے کے خیال پر کتاب کا نام رکھا گیا ہے ....
میری ب±کل دے وچ چور
نی، میری ب±کل دے وچ چور
کہنوں ک±وک سناواں
نی، میری ب±کل دے وچ چور
چوری چوری نکل گیا
جگت وچ پے گیا شور
نی، میری ب±کل دے وچ چور
آج جس طرح کے ہمارے ملک کے حالات اور عمومی عوامی روئیے ہیں ان سے تو لگتا ہے کہ چور نہ صرف بکل کے اندر ہے بلکہ ہر طرف چور ہی چور ہے خود بکل والے کے بارے میں خوش گمانی نہیں رکھی جا سکتی۔ سعید آسی کی کتاب ”تیری بکل دے وچ چور“ان کے بہترین کالموں کے انتخاب کا مجموعہ ہے جو نوائے وقت میں سالہا سال سے شائع ہو رہے ہیں۔اس کتاب میں انہوں نے گزشتہ تین سال 2015ءسے2017ءکے بہترین کالموں کا انتخاب کیا ہے۔کتاب پر مزید بحث سے قبل کچھ بات ان کی اپنی ذات کام اور کارکردگی پر بھی ہو جائے تو مناسب رہے گا مگر اس سے بھی قبل مختصراً کتاب کے اہتمام کا ذکر ضروری ہے۔کتاب ملک کے معروف ادارے قلم فاو¿نڈیشن انٹر نیشنل نے شائع کی، ناشران علامہ عبدالستار عاصم اورمحمد فاروق احمد چوہان ہیں۔کتاب کا سر ورق اور ٹائٹل دیدہ زیب اور کتاب کو فوٹو پیپر نے مزید خوبصورت بنا دیا ہے۔ نگارشِ ناشر میں تحریر کیا گیا ہے:
”سعید آسی کا میدانِ ادب وصحافت کے شہسواروں میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے 70ءکی دہائی میں اپنے قلمی سفر کا آغاز کیا اور آج 2018ءمیں بھی ان کا قلم علم وادب کی روشنی بکھیر رہا ہے وہ ملک کی ترقی و استحکام اور عوام کی خوشحالی کی مثبت سوچ کے ساتھ تحریری اور نشری تبصرے کرتے ہیں اور گزشتہ گیارہ برس سے نوائے وقت کے لیڈر رائٹر کی حیثیت سے حکمران اشرافیہ طبقات کو راہ عمل دکھا اور سمجھا رہے ہیں اور مجبور ومحکوم عوام کو سلطانی¿ جمہور کے ثمرات سے فیض یاب ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ 1981ءسے نوائے وقت کے ساتھ وابستہ ہیں اور سب ایڈیٹر سے ڈپٹی ایڈیٹر تک اور رپورٹر سے چیف رپورٹر تک صحافت کے ہر شعبے میں نمایاں خدمات سر انجام دی ہیں جبکہ بے لاگ کالم نگار اور تجزیہ کار کی حیثیت سے بھی وہ اپنی الگ شناخت قائم کر چکے ہیں۔ قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود انہوں نے قلم کے ساتھ اپنا رشتہ استوار کیا اور اسی کو حصول رزق کا ذریعہ بنایا۔ وہ بلاشبہ قلم قبیلہ کی ان شخصیات میں شامل ہیں جن کی بدولت ادب وصحافت کا بھرم قائم ہے وہ صحافیوں کی مختلف تنظیموں میں نمایاں عہدوں پر منتخب ہوتے رہے جبکہ متحرک سماجی کارکن کی حیثیت سے بھی انہوں نے خود کو تسلیم کرایا۔ انہوں نے روزنامہ ”وفاق“ لاہور سے 1975ءمیں اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا اور پھر روزنامہ ”آزاد“ ”صداقت“ ”صحافت“ اور ”جنگ“ سے ہوتے ہوئے روزنامہ ”نوائے وقت“ کے زینے تک پہنچے۔ ادبی میدان میں وہ گنج شکر اکیڈمی کے صدر اور اکادمی ادبیات پاکستان، رائٹرز گلڈ اور الحمراءادبی بیٹھک کے رکن کی حیثیت سے قلم قبیلے کے مسائل کو اجاگر کرتے رہتے ہیں۔ سماجی شعبے میں بھی ان کی خدمات تسلیم شدہ ہیں۔ حکومت پنجاب نے انہیں 2002ءمیں ہیومن رائٹس کمیشن پنجاب کارکن مقرر کیا جبکہ انہیں لاہور ہائیکورٹ کی جیل وہاسپٹلز ریفارمز کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے بھی ادارہ جاتی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کا موقع ملا۔ وہ گزشتہ 20 سال سے سبزہ زار ویلفیئر سوسائٹی اور ویلفیئر فیڈریشن کے صدر ہیں اور پنجاب ہارٹی کلچر اتھارٹی (پی ایچ اے) نے انکی سماجی خدمات کے اعتراف کے طور پر سبزہ زار سکیم ڈی بلاک کے پارک کو ”سعید آسی پارک“ کا نام دیا ہے۔ حال ہی میں ایشیئن کلچرل ایسوسی ایشن نے انہیں انکی بے بہا صحافتی خدمات کے اعتراف کے طور پر لائف ٹائم اچیوومنٹ ایوارڈ سے نوازا ہے۔ ان کی اب تک چھ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں انکی پنجابی شاعری کے دو مجموعے ”سوچ سمندر“ اور ”رمزاں“ اردو شاعری کا ایک مجموعہ ”تیرے دکھ بھی میرے دکھ ہیں“ دو سفر نامے ”آگے موڑ جدائی کا تھا“ اور ”جزیرہ جزیرہ“ اور نوائے وقت میں شائع ہونیوالے ان کے کالموں کا انتخاب ”کب راج کرے گی خلق خدا“ شامل ہے۔
نوائے وقت کیساتھ سعید آسی کی کی رفاقت کا سفر کئی دہائیوں پر محیط ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ سفر ان کی جناب مجید نظامی کیساتھ محبت اور ذہنی ہم آہنگی کے باعث رواں اور خوشگوار رہا ہے۔جناب مجید نظامی کے 2014ءمیں انتقال پُرملال کے بعد ظاہری وابستگی اور رفاقت کا یہ سفر اختتام کو پہنچ گیا۔اس روز سعید آسی دکھی اور بجھے بجھے نظر آئے۔ مجید نظامی کے ساتھ رفاقت کے لمحات کا تذکرہ وہ اپنے کالموں میں اور وقت نیوز سمیت ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں کرتے رہے ہیں۔ کتاب میں انہوں نے ”مجید نظامی کی تیسری برسی اور کیفیت قلبی “ کے عنوان سے جو کالم لکھا وہ مجید نظامی سے عقیدت کے اظہار کیساتھ آنکھیں بند کرکے سیاسی اشرافیہ کی تقلید کرنیوالوں کیلئے لمحہ¿ فکریہ بھی ہے۔ اس کالم میں لکھا ہے کہ” جناب مجید نظامی شریف خاندان کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے ایک مشفق ناقد نظر آتے تھے،میرے ساتھ بھی متعدد مواقع پر انہوں نے شریف خاندان بالخصوص میاں محمد نواز شریف کیساتھ اپنے تعلقات کا تذکرہ کیا اور میاں نواز شریف کی بھارت کیساتھ دوستی کے حوالے سے اختیار کی گئی حکومتی پالیسیوں پر رنجیدہ نظر آئے “۔ پاناما کیس میں فیصلے کے باعث میاں نواز شریف پہلے وزارت عظمیٰ پھر پارٹی صدارت سے نااہل ہوئے۔وہ ہرجگہ بجا اور بے جا یہ سوال پوچھ رہے ہیں۔”مجھے کیوں نکالا“۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی بھارت کے حوالے سے پالیسیاں مودی اور جندل سے ملاقاتیں اور دوستی کے دعوے ان کو اس سطح پر گرانے کا باعث بنے ہیں۔”تیری بکل دے وچ چور“میں پاناما کیس پر بھی کالم موجود ہیں۔ بلکہ آخری کالم اسی کیس کے حوالے سے بعنوان”باقی اپنی اپنی صلیب خود اٹھائیں“ موجود ہے اس کتاب اور کالم کے آخری دو جملے اپنے اندر بہت سے معانی لئے ہوئے ہیں۔”پاناما کیس کی صورت میں ایک امرت دھارا ہمیں دستیاب ہوگیا ہے۔جس کا جادو کم از کم اگلے بیس سال تک سر چڑھ کر بولتا رہے گا، سردست اسی پر اکتفا کریں“۔ کتاب میں سیاسی،سماجی ،معاشی اور معاشرتی و تاریخی پہلوو¿ں کے ساتھ روحانی احوال کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ قارئین آپ کو کئی لکھاریوں کے کالموں کے مجموعے نظر آئیں گے مگر تیری بکل دے وچ چور کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں صحافتی رنگ کے ساتھ ادبی رنگ بھی موجود ہے۔اسے ادب و صحافت کا حسین امتزاج بجا طور پر قرار دیا جاسکتا ہے۔کتاب قلم فاو¿نڈیشن انٹرنیشنل یثرب کالونی بینک سٹاپ والٹن روڈ لاہور کینٹ( 03008422518) سے دستیاب ہے۔