عرفات کا میدان تھا، اللہ کے آخری رسولﷺ اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار تھے۔ اہل توحید کے عظیم الشان مجمع کے درمیان میں جس میں جزیرہ نمائے عرب کے ہر حصہ ہر نسب اور قبیلہ سے تعلق رکھنے والے بوڑھے اور جوان مرد اور خواتین احرام پہنے موجود تھے۔ ہر طرف ایسے افراد کھڑے تھے جن کی آواز دور تک سنی جا سکتی تھی۔ آپﷺ ایک فقرہ ادا کر کے رک جاتے وہ افراد بلند آواز میں آپﷺ کا فقرہ دہراتے تاکہ آپﷺ کا پیغام سب حاضرین تک پہنچ جائے۔ خالق و مالک حقیقی کی حمدوثناءکے بعد آپﷺ نے فرمایا ”اے لوگو میری بات غور سے سنو۔ اگلے سال اور اس کے بعد پھر کبھی شاید میری تمہاری ملاقات نہ ہو سکے۔ اے لوگو تم پر ایک دوسرے کے جان، مال اور عزت اس دن تک حرام ہیں جب تم اپنے رب سے ملاقات کرو۔ اسی طرح جس طرح تمہارے لئے یہ دن یہ مہینہ اور یہ شہر حرام ہیں۔ بلاشبہ تم اپنے رب سے ملاقات کرو گے اور وہ تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔“ اتنا فرما کر اللہ کے رسولﷺ نے حاضرین سے پوچھا ”کیا میں نے اپنی بات تم تک پہنچا دی۔“
آواز آئی ”ہاں یا رسول اللہ ﷺ“
خالق و مالک کائنات کو شاہد بنا کر اللہ کے رسولﷺ نے اپنے طویل خطبہ میں یہ بھی فرمایا ”اے لوگو غور سے سن لو شیطان مایوس ہے کہ اس زمین پر اس کی کبھی عبادت کی جائے گی لیکن اسے امید ہے کہ وہ تم سے ایسے امور میں اپنی پیروی کروا لے گا جنہیں تم حقارت سے دیکھتے ہو اپنے بارے میں شیطان سے ہوشیار رہنا۔“
اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ”اے لوگو میرے بعد مرتد نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کے دشمن بن کر قتل کرنے لگو میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ اگر تم انہیں تھامے رکھو گے تو کبھی نہیں بھٹکو گے یہ دو چیزیں آسان اور سادہ ہیں۔ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔ تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا۔ تم کیا جواب دو گے؟“
حاضرین نے جواب دیا ”ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپﷺ نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا اس کا حق ادا کر دیا اور پوری خیرخواہی کی۔“
اللہ کے رسولﷺ نے تین دفعہ فرمایا ”اے اللہ گواہ رہنا اے اللہ گواہ رہنا اے اللہ گواہ رہنا۔“
آپﷺ ہر بار اپنی انگشت شہادت سے پہلے آسمان کی طرف اشارہ کرتے تھے اور پھر سامنے ہجوم کی طرف۔
آپﷺ نے فرمایا ”اے لوگو سنو! جو حاضر ہے میری بات غیرحاضر تک پہنچا دے بہت سے غیرحاضر سننے والوں سے زیادہ یادداشت رکھتے ہیں۔“
یہ اللہ کے رسولﷺ کے خطبہ حج البلاغ میں سے کچھ حصے ہیں۔ خطبہ کے بعد آپ اپنی قیام گاہ پر تشریف لے گئے اور غروب آفتاب تک قبلہ کی طرف رخ کر کے دعائیں مانگتے رہے۔ آپ کے دونوں ہاتھ اوپر اٹھے ہوئے تھے اور آپ اپنے رب سے ”ایک مسکین مانگنے والے“ کی مانند دعا کر رہے ہیں ۔ اے ہمارے رب تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں‘ اس تعریف جیسی تعریفیں جو ہم کر رہے ہیں اور اس سے بھی بہتر تعریفیں جو ہم کر نہیں کر سکتے اے اللہ میری نماز میری عبادت میری زندگی اور میری موت تیرے ہی لئے ہے اور مجھے تیری طرف لوٹنا ہے اور تو ہی میرا وارث ہے۔ اے اللہ میں قبر کے عذاب سے دل کے وسوسہ سے اور کسی مقصد کے منتشر ہو جانے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ میں ہوا کے شر سے رات کے شر سے دن کے شر سے اور زمانے کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“
منیٰ کا میدان تھا۔ اللہ کے رسولﷺ اپنی اونٹنی پر رکابوں میں پاﺅں رکھ کر کھڑے تھے۔ مہاجرین دائیں طرف انصار بائیں طرف بیٹھے تھے۔ باقی حاجی ان کے گرد بیٹھ چکے تو آپ نے خطاب شروع کیا۔ مکبر جن میں حضرت علیؓ بھی شامل تھے آپ کا خطاب دوسروں تک پہنچانے لگے۔ آپ کی اونٹنی کی مہار حضرت بلالؓنے پکڑی ہوئی تھی۔ اس خطاب میں آپﷺ نے یہ بھی فرمایا ”اے لوگو تم پر ایک دوسرے کے جان، مال اور عزت اسی طرح قابل احترام ہیں جس طرح اس حرمت والے شہر میں اس حرمت والے مہینہ کا یہ حرمت والا دن قابل احترام ہے۔ عنقریب تم اپنے رب سے ملاقات کرو گے اور تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔ اگر سیاہ فام نکٹا غلام بھی تمہارا امیر مقرر کر دیا جائے جو تمہاری قیادت اور حکومت قرآن کے مطابق کرے تو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنا اپنی والدہ والد بہن بھائی اور تمام رشتہ داروں سے حسن سلوک اور تواضع سے پیش آنا کسی کو ناحق قتل نہ کرنا۔ زنا نہ کرنا اور چوری نہ کرنا۔
تو وہ جنہوں نے داتا جی کے دربار میں اتنے اہل ایمان کا خون بہایا تھا ان تک اللہ کے رسولﷺ کا یہ فرمان نہیں پہنچا تھا؟ اللہ کے رسولﷺ کسی عمل سے منع فرمائیں اور کوئی مسلمان وہ کام کرے؟ کیوں؟ کیا وہ اور ان کو مارنے ان سے معصوم مسلمانوں کو مروانے والوں کے لئے نہیں ہے لازم اللہ کے رسول کے اس فرمان پر عمل؟ کیا پوچھتی ہے ہر نمناک آنکھ؟ جب اس خطہ میں کفر و شرکت کا گھپ اندھیرا تھا۔ تہ در تہ جہالت کا تو حضرت علی ہجویریؒ کونسی شمع ہدایت لے کر آئے تھے۔ اس کفر و شرک کے خلاف پرامن جنگ لڑنے کے لئے۔ اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسولﷺ کی سنت کی شمع ہدایت یا کوئی بارود سے بھری جیکٹ؟ مسلمان اور قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل نہ کرے؟ کیسے ہو سکتا ہے؟ مسالک ہیں، رہیں گے تاریخ انسانی کا یہ سبق ہے کہ کسی بھی مسلک اور نظریہ کو کبھی بھی قوت اور قتل و غارت سے ختم نہیں کیا جا سکا۔ فلاح کی راہ صرف اور صرف وہ ہے جو قرآن دکھاتا ہے جس پر قائم و دائم ہو جانے کی اللہ کے نبیﷺ نے ہدایت فرمائی ہے۔ تو پھر یہ کون سی راہ ہے؟ کس کی دکھائی راہ ہے جس پر چلے جا رہے ہیں اہل منصوبہ۔ کسی کی تباہی کی راہ ہے یہ؟ یہ وہ راہ تو نہیں جسے اللہ اور اس کے رسولﷺ نے دنیا و دین کی فلاح کی راہ قرار دیا ہوا ہے۔ کون ہے مجرم ان یتیم ہو جانے والے بچوں کا ان کے خاندانوں کا جنہیں اہل جیکٹ نے شہید کر دیا تھا؟ اہل پاکستان کا جن کی اجتماعی سلامتی پر خودکش حملے کئے جا رہے ہیں؟ سب کی سلامتی اس ملک کی سلامتی کے ساتھ ہے۔ سب مذاہب کی سب مسالک کی ان سب کی جو کوئی بھی اس پاکستان کے باسی ہیں جس کے لئے ہمارے اجداد نے خون دیا ہوا ہے۔ علی ہجویری نے لکھا ہے ”کسی کو دکھ دینے سے پہلے سوچو کہ اس کی جگہ تم ہو تو تمہارا کیا حال ہو گا؟“ یہ انداز فکر کس پر لازم ہے؟ کیا ہر انسان کو ہر عمل سے پہلے ایسا نہیں سوچنا چاہئے؟ جی ہاں ہر اس انسان کو جس نے روز حساب اپنے رب کو اپنے ان سب اعمال کا حساب دینا ہے جو اس کے دونوں ہاتھوں نے آگے بھیجے ہوں گے اس رب کو جو دلوں کے بھید بھی خوب جانتا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!
آواز آئی ”ہاں یا رسول اللہ ﷺ“
خالق و مالک کائنات کو شاہد بنا کر اللہ کے رسولﷺ نے اپنے طویل خطبہ میں یہ بھی فرمایا ”اے لوگو غور سے سن لو شیطان مایوس ہے کہ اس زمین پر اس کی کبھی عبادت کی جائے گی لیکن اسے امید ہے کہ وہ تم سے ایسے امور میں اپنی پیروی کروا لے گا جنہیں تم حقارت سے دیکھتے ہو اپنے بارے میں شیطان سے ہوشیار رہنا۔“
اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ”اے لوگو میرے بعد مرتد نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کے دشمن بن کر قتل کرنے لگو میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ اگر تم انہیں تھامے رکھو گے تو کبھی نہیں بھٹکو گے یہ دو چیزیں آسان اور سادہ ہیں۔ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔ تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا۔ تم کیا جواب دو گے؟“
حاضرین نے جواب دیا ”ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپﷺ نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا اس کا حق ادا کر دیا اور پوری خیرخواہی کی۔“
اللہ کے رسولﷺ نے تین دفعہ فرمایا ”اے اللہ گواہ رہنا اے اللہ گواہ رہنا اے اللہ گواہ رہنا۔“
آپﷺ ہر بار اپنی انگشت شہادت سے پہلے آسمان کی طرف اشارہ کرتے تھے اور پھر سامنے ہجوم کی طرف۔
آپﷺ نے فرمایا ”اے لوگو سنو! جو حاضر ہے میری بات غیرحاضر تک پہنچا دے بہت سے غیرحاضر سننے والوں سے زیادہ یادداشت رکھتے ہیں۔“
یہ اللہ کے رسولﷺ کے خطبہ حج البلاغ میں سے کچھ حصے ہیں۔ خطبہ کے بعد آپ اپنی قیام گاہ پر تشریف لے گئے اور غروب آفتاب تک قبلہ کی طرف رخ کر کے دعائیں مانگتے رہے۔ آپ کے دونوں ہاتھ اوپر اٹھے ہوئے تھے اور آپ اپنے رب سے ”ایک مسکین مانگنے والے“ کی مانند دعا کر رہے ہیں ۔ اے ہمارے رب تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں‘ اس تعریف جیسی تعریفیں جو ہم کر رہے ہیں اور اس سے بھی بہتر تعریفیں جو ہم کر نہیں کر سکتے اے اللہ میری نماز میری عبادت میری زندگی اور میری موت تیرے ہی لئے ہے اور مجھے تیری طرف لوٹنا ہے اور تو ہی میرا وارث ہے۔ اے اللہ میں قبر کے عذاب سے دل کے وسوسہ سے اور کسی مقصد کے منتشر ہو جانے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ میں ہوا کے شر سے رات کے شر سے دن کے شر سے اور زمانے کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“
منیٰ کا میدان تھا۔ اللہ کے رسولﷺ اپنی اونٹنی پر رکابوں میں پاﺅں رکھ کر کھڑے تھے۔ مہاجرین دائیں طرف انصار بائیں طرف بیٹھے تھے۔ باقی حاجی ان کے گرد بیٹھ چکے تو آپ نے خطاب شروع کیا۔ مکبر جن میں حضرت علیؓ بھی شامل تھے آپ کا خطاب دوسروں تک پہنچانے لگے۔ آپ کی اونٹنی کی مہار حضرت بلالؓنے پکڑی ہوئی تھی۔ اس خطاب میں آپﷺ نے یہ بھی فرمایا ”اے لوگو تم پر ایک دوسرے کے جان، مال اور عزت اسی طرح قابل احترام ہیں جس طرح اس حرمت والے شہر میں اس حرمت والے مہینہ کا یہ حرمت والا دن قابل احترام ہے۔ عنقریب تم اپنے رب سے ملاقات کرو گے اور تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔ اگر سیاہ فام نکٹا غلام بھی تمہارا امیر مقرر کر دیا جائے جو تمہاری قیادت اور حکومت قرآن کے مطابق کرے تو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنا اپنی والدہ والد بہن بھائی اور تمام رشتہ داروں سے حسن سلوک اور تواضع سے پیش آنا کسی کو ناحق قتل نہ کرنا۔ زنا نہ کرنا اور چوری نہ کرنا۔
تو وہ جنہوں نے داتا جی کے دربار میں اتنے اہل ایمان کا خون بہایا تھا ان تک اللہ کے رسولﷺ کا یہ فرمان نہیں پہنچا تھا؟ اللہ کے رسولﷺ کسی عمل سے منع فرمائیں اور کوئی مسلمان وہ کام کرے؟ کیوں؟ کیا وہ اور ان کو مارنے ان سے معصوم مسلمانوں کو مروانے والوں کے لئے نہیں ہے لازم اللہ کے رسول کے اس فرمان پر عمل؟ کیا پوچھتی ہے ہر نمناک آنکھ؟ جب اس خطہ میں کفر و شرکت کا گھپ اندھیرا تھا۔ تہ در تہ جہالت کا تو حضرت علی ہجویریؒ کونسی شمع ہدایت لے کر آئے تھے۔ اس کفر و شرک کے خلاف پرامن جنگ لڑنے کے لئے۔ اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسولﷺ کی سنت کی شمع ہدایت یا کوئی بارود سے بھری جیکٹ؟ مسلمان اور قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل نہ کرے؟ کیسے ہو سکتا ہے؟ مسالک ہیں، رہیں گے تاریخ انسانی کا یہ سبق ہے کہ کسی بھی مسلک اور نظریہ کو کبھی بھی قوت اور قتل و غارت سے ختم نہیں کیا جا سکا۔ فلاح کی راہ صرف اور صرف وہ ہے جو قرآن دکھاتا ہے جس پر قائم و دائم ہو جانے کی اللہ کے نبیﷺ نے ہدایت فرمائی ہے۔ تو پھر یہ کون سی راہ ہے؟ کس کی دکھائی راہ ہے جس پر چلے جا رہے ہیں اہل منصوبہ۔ کسی کی تباہی کی راہ ہے یہ؟ یہ وہ راہ تو نہیں جسے اللہ اور اس کے رسولﷺ نے دنیا و دین کی فلاح کی راہ قرار دیا ہوا ہے۔ کون ہے مجرم ان یتیم ہو جانے والے بچوں کا ان کے خاندانوں کا جنہیں اہل جیکٹ نے شہید کر دیا تھا؟ اہل پاکستان کا جن کی اجتماعی سلامتی پر خودکش حملے کئے جا رہے ہیں؟ سب کی سلامتی اس ملک کی سلامتی کے ساتھ ہے۔ سب مذاہب کی سب مسالک کی ان سب کی جو کوئی بھی اس پاکستان کے باسی ہیں جس کے لئے ہمارے اجداد نے خون دیا ہوا ہے۔ علی ہجویری نے لکھا ہے ”کسی کو دکھ دینے سے پہلے سوچو کہ اس کی جگہ تم ہو تو تمہارا کیا حال ہو گا؟“ یہ انداز فکر کس پر لازم ہے؟ کیا ہر انسان کو ہر عمل سے پہلے ایسا نہیں سوچنا چاہئے؟ جی ہاں ہر اس انسان کو جس نے روز حساب اپنے رب کو اپنے ان سب اعمال کا حساب دینا ہے جو اس کے دونوں ہاتھوں نے آگے بھیجے ہوں گے اس رب کو جو دلوں کے بھید بھی خوب جانتا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!