آج میں ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام سے وہ باتیں شیئر کرنے جا رہاہوں جن کی وجہ سے میں اور میری فیملی چند ماہ سے اذیت اور کرب سے گزر رہے ہیں۔ میری پہلی خواہش اور حتی الوسع کوشش یہ تھی کہ ایک عام پاکستانی شہری سے یہ حالات پوشیدہ رکھے جائیں مگر پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں جبکہ لاءاینڈآرڈر کی صورت احوال اس قدر دگرگوں ہو چکی ہے اور پاکستان کو نائن الیون کے سانحہ کے بعد پے در پے سانحات پیش آئے جس کی وجہ سے زمینی حقائق کو مزید نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ چند ماہ سے مجھے ایک کالعدم تنظیم کی جانب سے دھمکی آمیز ٹیلی فون کالز کا سلسلہ جاری تھا مگر میں اسے اپنی فطرتی وِل پاور سے نظرانداز کرتا چلا آ رہا تھا پھر فروری کی ایک صبح مجھے ایک کوریئر سروس سے ایک خط موصول ہوا جس میں اس کالعدم تنظیم نے لکھا کہ اگر میں نے صدر مملکت آصف علی زرداری کی حمایت سے دستبردار نہ ہوا اور میری تحریروں اور تقریروں کا انداز نہ بدلا تو مجھے میرے بچوں سمیت نشانِ عبرت بنا دیا جائے گا اور مجھے اس کالعدم تنظیم کی جانب سے حکم صادر فرمایا گیا کہ میں اگلے چوبیس گھنٹوں میں کسی ٹیلی ویژن چینل پہ آ کر اپنے گناہوں کی توبہ کروں۔ میں نے اپنی فطرت کے تحت اس خط کو مخفی رکھااور حالات کا جائزہ لینے کی ٹھانی۔ مگر صرف دو دن بعد مجھے پھر ایک کوریئر پوسٹل سروس سے خط موصول ہوا کہ میں نے اس کالعدم تنظیم کی بات نہ مان کر اسلام سے غداری کی ہے اور تنظیم کے امیر کے حکم کے مطابق مجھے دائرہ اسلام سے خارج کیا جا تا ہے۔ اس دوسرے خط کے ساتھ پاکستانی کرنسی بھی منسلک تھی اور مزید لکھا گیا تھا کہ یہ رقم جو خط کے ساتھ ہے یہ میرے اور میرے بیوی بچوں کے کفن کے لیے ہے اور یہ کہ میرے پاس ابھی بھی وقت ہے کہ میں ٹیلی ویژن چینل پر آ کر اپنے گناہوں سے تائب ہو جاﺅں۔ میں اور میری بیگم ابھی یہ خط پڑھ رہے تھے کہ میری بچی جو کہ اے لیول میں لاہور کے ایک مقامی کالج میں زیر تعلیم تھی کی پرنسپل صاحبہ کا فون آگیا کہ میں فوری طور پر کالج پہنچ جاﺅں میں کالج اپنی بیگم کے ساتھ پہنچا تو بے حد گھبرایا ہوا تھا کہ خدانخواستہ کوئی حادثہ تو نہیں ہو گیا؟ کالج کے باہر اور اندر پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی میں جب پرنسپل کے آفس پہنچا تو کالج کے سٹاف نے عزت و احترام سے ہمیں بٹھایا اور ایک فوٹوکاپی شدہ خط مجھے تھما دیا جس میں لکھا تھا کہ اگر کالج کی انتظامیہ نے مطلوب وڑائچ کی بچی کو کالج سے نہ نکالا تو کالج کے دیگر طلبا و طالبات کی زندگی کو خطرہ ہے اور اس سارے نقصان کی ذمہ دار کالج انتظامیہ ہو گی۔ مقامی پولیس افسران بھی اس موقع پر موجود تھے آخر کالج سے مذاکرات کے بعد کالج انتظامیہ نے ایک خط ہمارے حوالے کیا۔ جس پرتحریر تھا کہ آپ کی بیٹی کو سیکورٹی رسک کی بناءپر کالج سے خارج کرکے گھر بھجوایا جا رہا ہے کیونکہ کالج انتظامیہ صرف ایک سٹوڈنٹ کی خاطر پورے کالج کو خطرے میں نہیں ڈال سکتی۔ یاد رہے کہ بالکل اسی دن کالج میں سٹوڈنٹ الیکشن تھے اور ہماری بیٹی ٹاپ فیورٹ تھی ۔ پرنسپل کی طرف سے لکھے جانے والے خط میں بھی لکھا گیا کہ میری بیٹی ماہ نور اس پوزیشن پر ٹاپ فیورٹ ہے۔ ان حالات میں ہم بیٹی کو لے کر گھر روانہ ہوئے ابھی راستے میں ہی تھے کہ میرے تین بیٹے جو کہ ایک انٹرنیشنل سکول پاک ترک سکول میں زیر تعلیم تھے کے پرنسپل کا فون آیا کہ آپ سکول پہنچیں میں اور میری بیوی پاک ترک پہنچے ۔وہاں بھی حالات کالج سے مختلف نہ تھے اور سکول پرنسپل نے ہمیں ہمارے تینوں بچوں کا سکول لےونگ سرٹیفیکیٹ ہمارے ہاتھوں میں تھمایا اور معذرت کی کہ ان تین بچوں کی خاطر وہ سکول کے باقی طلبا و طالبات کی زندگی کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔ یاد رہے ہمارے سکول اور کالج پہنچنے سے پہلے انتظامیہ اور سٹاف نے برکی روڈ تھانہ اور ستوکتلہ تھانہ میں اپنے اپنے اداروں کی جانب سے اس کالعدم تنظیم کے خلاف ایف آئی آرز درج کروا دی ہوئی تھی بچے پریشان تھے کہ ہمارے والدین ہمیں یوں سکول سے لے کر کیوں آئے ہیں جبکہ ہم بچوں کو یہ سب کچھ نہ بتانا چاہتے تھے۔ گھر پہنچ کر میں نے اس واقعہ کی اطلاع اعلیٰ حکام کو کی۔ صدر مملکت کو تمام صورت احوال سے بذریعہ ای میل اطلاع کی مجھے اور بچوں کے سکولز کو ملنے والے خطوط اور تھانہ ستوکتلہ اور برکی روڈ تھانہ اور میری رہائش گاہ تھانہ جوہرٹاﺅن تینوں کی ایف آئی آر کی کاپیاں صدر مملکت کو ارسال کیں۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کونسے ناکردہ گناہوں کی سزا مجھے اورمیری فیملی کو دی جا رہی ہے میں نے اپنے وکلاءاور دوستوں کو بلایا تمام صورت حال سے آگاہ کیا اور پھر جب دو دن گزر جانے کے باوجود مجھے حالات میں بہتری نظر نہ آئی تو میں نے دوستوں اور احباب کے مشورہ سے بچوں کو بمعہ بیوی ملک سے دور ایک دوسرے براعظم میں بھیجنے کا فیصلہ کر لیا۔ کیونکہ میری ساری حیات اور جائیداد بس یہ بچے ہی تو ہیں جنہیں میں حالات کے رحم و کرم پر نہ چھوڑ سکتا تھا۔میں نے گورنر پنجاب جو کہ ذاتی دوست ہیں کو بھی حالات کی سنگینی سے مطلع کیا۔ پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل سینیٹر جہانگیر بدر کو بھی تحریراً اور ذاتی طور پر آگاہ کیا۔ ہر طرف خاموشی تھی مجھے کہیں سے امید افزا تو کیا جواب تک نہ ملا۔ ان حالات میں ، میں اپنے بچوں کو اور بیوی کو لے کر ایئرپورٹ پہنچا اور بچوں کو اور بیگم کو ہزاروں میل دور سات سمندر پار چھوڑ آیا۔ میں خود بھی وہیں رک سکتا تھا مگر سوچا کہ یہ جنگ جو میرے وطن میں جاری ہے کیا ےہ میری ذمہ داری نہیں ہے کہ اس میں اپنا حصہ ڈالوں۔ یا پھر میں اگر آج بھاگ گیا تو پھر اٹھارہ کروڑ عوام کہاں جائیں گے۔ میرے پاس تو وسائل تھے مگر کیا اٹھارہ کروڑ پاکستانی اپنے بچوں کو ملک سے باہر لے جانے کی سکت رکھتے ہیں؟ میں نے اپنی زندگی کی پہلی جلاوطنی صرف اٹھارہ سال کی عمر میں کی اور پھر ضیاءآمریت کے خاتمے کے بعد پانچ سال بعد واپس آےا تھا مگرمےرے بچے17سال اور 11سال کی عمر میں جلاوطنی کی تاریخ رقم کر رہے ہیں اور کبھی کبھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ جلاوطنی کہیں ہماری خاندانی میراث تو نہیں بن گئی ہے میں ضیائی آمریت کے خلاف ساڑھے گیارہ سال مشرف آمریت کے خلاف آٹھ سال برسرپیکار رہا اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ آمریت سے لڑتا رہا۔ شہید محترمہ اور پارٹی کی دیگر قیادت کو لے کر ان دنوں جب امریکہ بات سننے کو تیار نہ تھا میں نے اپنی پارٹی کی لیڈر شپ کے لیے امریکن پینٹاگون اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے دروازے کھلوائے بلکہ اقوام متحدہ کے اعلیٰ عہدے داروں سے بھی ملاقاتیں رکھوائیں۔ 1998ءمیں سینیٹر آصف علی زرداری کی درخواست پر پاکستان آیا اور سینٹ میں قائد حزب اختلاف کے چیمبر میں آصف علی زرداری صاحب سے ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر سیکرٹری جنرل جہانگیر بدر اور سپیکر فہمیدہ مرزا بھی موجود تھے جب سینیٹر آصف علی زرداری صاحب نے یہ تاریخی الفاظ کہے تھے کہ مطلوب خدا نے تجھے میرے لیے فرشتہ بنا کر بھیجا ہے اور مجھے یقین ہے کہ تم مجھے اس مشکل سے نکالوگے۔ وہ دن اور آج کا دن میں ان الفاظ کی حرمت کے لیے مسلسل تگ و دو میں رہا مجھے مشکلات کا سامنا کرتے وقت ذرا خوف نہ آیا کہ مجھے سینیٹر آصف علی زرداری کو دیئے قول کو نبھانا تھا۔ لیکن آج جب آصف علی زرداری صدر مملکت بن چکے ہیں اور ان کے دفاع کی پاداش میں میری بیوی بچوں کو اپنے ہی دور حکومت میں جلاوطنی اختیار کرنا پڑی ہے اور مجھے صدر کی پولیٹیکل سیکرٹری کا ایک خط موصول ہوتا ہے کہ صدر صاحب بہت مصروف ہیں اس لیے ابھی مستقبل قریب میں ملاقات کا امکان نہیں ہے تو میں حیران رہ جاتا ہوں کہ میں جن کے بچوں کو بچانے کے لیے اپنا کاروبار تباہ کرتا ہوں اپنی زندگی کو داﺅ پر لگا کر سینیٹر آصف زرداری کے ساتھ اڈیالہ جیل میں پابند سلاسل ہوتا ہوں آج ان لوگوں کو میرے بچوں کی مشکلات اور کرب کا احساس نہیں؟ کیا سیاست اسی خودغرضی کا نام ہے کیا چوری کھانے والے مجنوں اور خون دینے والوں میں کوئی فرق نہیں رہ گیا۔ میں نے پارٹی کی اعلیٰ قیادت بشمول شریک چیئرپرسن کو خطوط لکھے مگر جواب ندارد۔ پھر میرے پاس کونسا پلیٹ فارم رہ جاتا ہے کہ میں اپنی داستان ان تک پہنچاﺅں کہ فیڈرل کونسل کا ممبر ہوں ضرور مگر فیڈرل کونسل کے اجلاس کو بھی گزرے مدت ہوگئی۔ میں یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں کہ جب پیپلز پارٹی کی فیڈرل کونسل کا سینئر رکن اپنے شریک چیئرمین اور صدرمملکت تک اپنی بپتا نہیں پہنچا سکتا اپنی اور اپنے بچوں کی حفاظت کی بھیک نہیں مانگ سکتا تو پھر اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کی دسترس حکمرانوں تک کیسے ممکن ہے؟ صدر مملکت آپ کو یاد ہوگا آپ نے اڈیالہ جیل میں مجھے کہا تھا کہ مطلوب آپ میرے چھوٹے بھائی ہو میرا اور کوئی بھائی نہیں۔ تو پھر صدر مملکت آج آپ کے بھائی کے بیوی بچے ہزاروں میل دور جلاوطنی میں کرب اور مصائب میں ہیں۔ کیا ایوان صدر میں بیٹھے مطلوب وڑائچ کے بھائی کو یہ احساس ہے؟صدر صاحب کیا میں آپ کی وفاداری کی کسوٹیوں پر پورا نہیں اترا ۔ میں نے آپ کے لیے ہر وقت جان ہتھیلی پر رکھ کر اس وقت کے آمر کے ساتھ ٹکر نہیں لی تھی ؟اگر یہ سب کچھ سچ ہے تو پھر اپنی ہی حکومت کے دور میں میرے بچے جلاوطن کیوں؟
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024