’’ثالثی کرائیں مگر…احتیاط سے‘‘
( گزشتہ سے پیوستہ )
بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے عالم اسلام کے کئی DESKS بنا رکھے ہیں۔ اس نے مسلم ممالک کو کئی مختلف زونز میں تقسیم کررکھا ہے‘ خصوصاً پاکستان کیلئے اسکی ساری توانائیاں اورمہارت صرف ہوتی ہے۔’’را‘‘ کی دنیا بھر میں تمام خفیہ سرگرمیوں کا پاکستان پرفوکس سب سے زیادہ اورخصوصی حیثیت کا حامل ہے۔یوں کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اسکی تمام تر سرگرمیوں کا محور ومرکز پاکستان ہے ۔ اس میں بھارت کو امریکہ‘ اسرائیل سمیت تمام مغربی ممالک کی معاونت بھی حاصل ہے۔ ان حالات کی روشنی میں آئی ایس آئی کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ بھارت میں کم از کم خالصتان کا بیج بوکر اسے آزاد ریاست بنا کرہی دم لے۔ پچھلے کالم میں یہ بتانا مقصود تھا کہ امریکہ نے طالبان سے بات چیت کیلئے پاکستان سے جو مدد طلب کی تھی اورجسکے جواب میں پاکستان نے جس سرعت کے ساتھ یو اے ای میں امریکہ اورطالبان کے براہ راست مذاکرات کرادیئے اس پر ناقدانہ تبصرہ کی بجائے چند گزارشات حکومت وقت اور اسٹیبلشمنٹ کی خدمت میں عرض کرنا ہیںہمیں یہ نہیں بھولناچا ہیئے کہ امریکہ ایک ناقابل اعتبار ملک ہے وہ ہمیشہ پاکستان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتاچلا آتا ہے اورجب اسکا مقصدپورا ہوجاتا ہے تو وہ نہ صرف پاکستان سے بڑی بے اعتنائی سے پیش آتا ہے بلکہ الٹا الزامات کی بوچھاڑ کے ساتھ کبھی پریسلر ترمیم اورکبھی سائمنگٹن ترمیمات کے ذریعے پاکستان پر پابندیاں بھی عائد کرتا رہا ہے۔ اسکی مثالیں دینے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ اسکی بے وفائیوں کی ایک طویل داستان ہے جو تمام اہل پاکستان کو اچھی طرح یاد ہیں۔ اسکے مقابلے میں بھارت کی امریکہ کیلئے کیا خدمات ہیں لیکن امریکہ ہمیشہ ایک طرفہ طور پربھارت کو پاکستان کے مقابلے نوازتا رہا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ اورافغان طالبان کے درمیان ثالثی سے قبل بین الاقوامی ضمانتیں لینی چاہئیں تھیں۔ مثلاً افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد ان کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالے گا یعنی ظاہر ہے طالبان افغانستان میں اسلامی نظام کا نفاذ کریں گے۔ امریکہ اس پر اقوام متحدہ کے ذریعے حقوق انسانی یا کسی اوربات کی آڑ لیکر پابندی لگاسکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ امریکہ اورنیٹو افواج کے افغانستان سے مکمل انخلاء کی شرط پر افغان طالبان اورامریکہ کے درمیان مذاکرات کی حمایت کی جانی چاہئے تھی۔ ہمیں یہ یاد رکھناچا ہیئے کہ پینٹاگون افغانستان سے مکمل انخلاء پر کبھی راضی نہ ہوگا۔ امریکہ کی ۔ افغانستان میں کسی نہ کسی شکل میں موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ ایشیا کا یہ خطہ ہمیشہ عدم استحکام اورجنگ وجدل کا شکاررہیگا۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ بغیر کسی صلے کے امریکہ کا آخری حد تک ساتھ دیالیکن امریکہ نے ہمارے ساتھ کبھی وفانہ کی بلکہ صلے میں ہمیں زخم ہی دیئے۔ ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں اب ہماری اسٹیٹ پالیسی پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے ۔ خصوصاً امریکہ سے تعلقات کی ذیل میں ہمیں نئی پالیسی اورحکمت عملی مرتب کرنا ہوگی اس پالیسی کو ہمیں Deep State پالیسی کا نام دینا ہوگا جو نہ صرف خفیہ ہو بلکہ اس پروزارت خارجہ‘دفتر خارجہ‘ وزیراعظم اورصدر مملکت کا خصوصی حلف یافتہ ہونا اوراسکو ریاستی راز کے زمرے میں رکھنا ہوگا۔ Deep State Policy کا اہم اور مرکزی نکتہ سورۃ المائدہ کی آیات نمبر51‘اور52 کا نچوڑ ہے۔ اس میں اضافی طورپربھارت کو بھی بطور دشمن ریاست شامل کرلیاجائے۔ بظاہر ان ممالک سے (سوائے اسرائیل کے) سفارتی تعلقات تو رکھے جائیں لیکن انکی قربت سے حد درجہ دور رہا جائے۔ دینی عقائد پرسمجھوتہ کیئے بغیر سائنسی اورفنی علوم کا حصول جاری رکھاجائے۔ ہماری مستقل پالیسیوں کا یہ حصہ ہوناچا ہیئے کہ مذکورہ ممالک ہمارے کبھی بھی دوست نہیں ہوسکتے ۔ ان ممالک سے ایسے طویل مدتی معاہدے نہ کیئے جائیں جس سے ریاست پاکستان کے اسلامی تشخص یااسکی سالمیت پر کسی نہ کسی طورپرزک پڑتی نظر آتی ہو یا اس کا ہلکا سا بھی شائبہ پڑتا ہو۔ ڈیپ اسٹیٹ پالیسی اگر پاکستان میں بنائی جائے تو یہ کوئی انہونی بات نہ ہوگی بلکہ یہ پالیسی امریکہ سمیت برطانیہ‘بھارت اور اسرائیل کے علاوہ بیشتر ممالک میں اپنا وجود رکھتی ہے۔ اگرسازشی پالیسیوں کے حوالے سے بات کی جائے تو مذکورہ بالا چاروں ممالک دنیا بھر میں سرفہرست نظر آئیں گے۔ ماضی میں امریکہ کئی ممالک کے خلاف سازشیںکرچکا ہے جسکا سرکاری طورپر انکشاف خود امریکہ ایک مخصوص مدت کے گزرجانے کے بعد کرتا ہے۔ اس کی کم از کم مدت 25سے 30سال بعد ہوتی ہے زیادہ سے زیادہ مدت کی کوئی قید نہیں یہ حالات اورموزوں مواقع پر منحصر ہوتی ہے۔ مثلاً حال ہی میں امریکی آرکائیوز سے پرانی دستاویزات منظرعام پرلائی گئیں جس میں یہ اعتراف کیا گیا تھا کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم شہیدملت لیاقت علی خان کے قتل میں اس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین کا ہاتھ تھا۔اسکی وجہ یہ بتائی گئی کہ امریکہ کی نظرایرانی تیل کے ذخائر پر تھی اورپاکستان کے ایران سے اچھے تعلقات تھے چنانچہ ہیری ٹرومین نے لیاقت علی خان سے مطالبہ کیا کہ امریکی آئل کمپنیوں سے ایرانی تیل کے ذخائر کے معاہدے کرانے میں مدد کرے۔ لیاقت علی خان نے ایسا کرنے سے منع کردیا تو انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں جس پر مبینہ طورپر لیاقت علی خان ڈٹ گئے جس کے نتیجے میں اکتوبر1951ء میں شہید ملت لیاقت علی خان کا ایک جلسہ عام میں قتل کرایا گیا۔ اس خبرکا مبینہ انکشاف سعودی عرب کے ایک مشہور اخبار’’عرب نیوز‘‘ میں کیا گیا تھا جسکے مطابق اسکی تفصیل یو ایس اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ڈی کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹس سے معلوم ہوئی۔ حال ہی میں نریندر مودی نے بنگلہ دیش میں سقوط ڈھاکہ کی بھارتی سازش کا یہ ببانگ دہل انکشاف /اعتراف کیا تھا۔ اس طرح کے مزید واقعات کا بھی حوالہ دیا جاسکتا ہے۔ مگر تفصیل بتانا مقصود نہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ اب وقت آگیاہے کہ ہمیں بھی اپنی بقاء اورسلامتی کیلئے کچھ قدم آگے بڑھانا ہوگا اور اب ہماری سوچ کادائرہ پاکستان سے ماورا کرتے ہوئے عالم اسلام کی یکجہتی‘ استحکام اوراسکی اجتماعی سلامتی تک وسیع کرنا ہوگا۔ہمیں عالم اسلام اورپوری مسلم امہ کی اجتماعی سوچ کا حامل ہونا ہوگاورنہ ایک ایک کرکے تمام مسلم ممالک تباہ کیئے جاتے رہیں گے اورہم بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے رہیں گے۔ہاں !یہ درست ہے کہ پاکستان کو عالم اسلام کی قیادت کیلئے پہلے خود کو اندر سے مضبوط کرنا ہوگا۔ اس کے لئے اللہ نے نئی قیادت کے ذریعے ایک موقع عطا کیا ہے اسکو ہاتھ سے جانے نہیں دینا ہوگا۔ دشمن قوتیں عمران خان کو ناکام کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ انکے اطراف بعض موقع پرستوں نے گھیرا تنگ کرلیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں اسکا ادراک دلانے کیلئے سنجیدہ لوگ آگے آئیں اورانہیں درست مشورہ دیں اوران لوگوں سے جان چھڑائیں جو انہیں انکے اصل مقصد سے ہٹا رہے ہیں ‘ دور لے جارہے ہیں۔