جب کوئی مشکل ہمیںقومی خزانے پر آتی ہے توآئی ایم ایف کے سامنے جھولی پھیلا دیتے ہیں اگر کوئی ملک میں آفات آجائے توپھر اپنی ہی غریب عوام کے سامنے جھولی پھیلانا شروع کر دیتے ہیںمگر جب ہم قوالی سنتے ہیں جھومتے ہیں جب وہ کہتاہے جو کچھ بھی مانگنا ہے در مصطفی سے مانگ ، اﷲ کے حبیب انبیا سے مانگ مگر جب مانگنے کی باری آتی ہے توآئی ایم ایف کے ساتھ انسانوں سے مانگنا شروع کر دیتے ہیں ۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں جب سے کرونا وائرس آیا ہے ۔جہاں پیسوں کی اور وسائل کی کمی ہے وہی معلومات کا فقدان بھی ہے ۔ تمام حکومتی اسپتالوں کیلئے ایس او پیز لکھ رکھی ہیں جیسے کینسر کا نوری اسپتال اسلام آباد ہے وہاں اگر موجودہ حالات میں اپنا کنسر کے کاغذات چیک کرانے اور مریض کو دکھا نے جاتے ہیں تو نوری اسپتال کے گیٹ پر مریض کی باڈی کا ٹمپریچر چیک کیا جاتا ہے ۔ اگر ٹمپریچر ہو تو اسے اسپتال میں اندر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کینسر مریضوں کا چونکہ باڈی ایمون سسٹم پہلے ہی کمزور ہوتا ہے لہذا کرونا وائرس کی وجہ سے مزید کینسر کے مریضوں کو احتیاط کی اشد ضرورت ہے ۔ اگر کسی کا ٹمپریچر گیٹ پر چیک کرتے ہوئے نارمل نہ ہو تو پھر وہ شخص کرونا ٹیسٹ پہلے کرائے گا پھر منفی آنے پر کینسر علاج کرانے آسکتا ہے ۔ ایسی معلومات عوام کو ضرور شیئر کریں تاکہ نہ خود پریشان ہوں اور نہ ہی ڈاکٹرز و عملہ ان کا پریشان ہو ۔ راقم کا ذاتی تجربہ ہے کہ ادوایات کے ساتھ دعائیں بھی بہت اثر رکھتی ہیں ۔ پچھلے ہفتے کرونا وائرس کے فنڈ ریزنگ کے لئے تمام بڑے بڑے میڈیا گروپ اور ان کے ٹی وی انیکر ز کو وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ساتھ بٹھائے رکھا ۔یہ تین گھنٹے کی میراتھان ٹرانسمیشن تھی۔ جس میں دنیا بھر سے فون کال کے ذریعے چندہ دیا گیا ۔ سرکاری اداروں کے بڑوں نے اپنے ادارے کے فنڈ سے دل کھول کر وزیراعظم کو فنڈ دئے۔ اس سے پہلے بھی ریلوے وزیر نے وزیراعظم کو ریلوے منسٹری کی جانب سے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بڑاچیک پیش کر چکے تھے ۔ ہم تو سمجھ رہے تھے کہ تمام ادارے خسارے میں چل رہے ہیں لیکن اس روز خوشی ہوئی جب ان اداروں کے بڑوں نے دل کھول کر وزیراعظم کو عطیات دئے ۔ ستار ایدھی کے بیٹے ڈاکٹر ایدھی نے تو حد ہی کر دی لوگ ایدھی کو اپنے عطیات دیتے ہیں اور یہ وزیراعظم کو ایدھی عطیہ کا چیک دینے پہنچ گئے ۔ ایدھی پڑھا لکھا نہیں تھا اور بیٹا ڈاکٹر ہو کر بھی نہیں سمجھ سکا کہ لوگ انہیں فنڈ کیوں دیتے ہیں ۔ ایدھی مرحوم نے کبھی وزیراعظم ہائوس نہیں دیکھا تھا ۔ وہ ان بڑوں سے ملنے نہیں جایا کرتے تھے۔ اپنا وقت ایدھی ہوم میں گزارا کرتے تھے۔ ڈاکٹر ایدھی وزیراعظم کو چیک دے کر نکلے تو انہیں کرونا وائرس نے پکڑ لیا ۔ شائد اس لئے کہ تم یہاں کیوں آئے ؟ دعا ہے اﷲ انہیں صحت یاب کرے اور والد مرحوم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے آمین ۔میڈیا اور منسٹری اطلاعات کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے لیکن اس روز اینکرز کیساتھ فردوس عاشق اعوان کی کرسی ساتھ نہیں تھی ۔ جب کہ جو کام سینٹر فیصل کر رہے تھے وہ کام فردوس عاشق اعوان صاحبہ کے کرنے کے تھے ۔ کسی نے محسوس کیا ہو یا نہ ہو اس روز ڈاکٹر صاحبہ نے اعتراض کیا ہوگا ۔پھر کوشش بھی کہ عمران خان سے وہ رابطہ کر سکیں لیکن وہاں انہیں بات کرنے کی اجازت نہ ملی۔ اجازت کیا ملنا تھی اس وقت تک آپا جان کا جانا ٹھہر چکا تھا ۔پھر وہی ہوا جو دکھائی دے رہا تھا ۔ محترمہ کی چھٹی اور انکی سیٹ پرجنرل صاحب آ گئے اور جو سیٹ وزیر اطلاعات کی خالی کافی عرصے سے خالی پڑی تھی اسے سینٹر شبلی فراز کے سپرد کی گئی۔ بات ہو رہی تھی فنڈ ریزنگ کی ۔ اس روز تین گھنٹے کی ٹرانسمیشن جاری رہی جس میں لائف کالز بھی تھیں۔ ایک کال مشہور کرکٹر اور عمران خان کے دیرینہ ساتھی سابق کپتان جاوید میا نداد کی بھی تھی۔ میانداد نے کہا عمران بھائی جب آپ کرکٹ میںتھے اس وقت بھی مانگتے تھے ،جب نہیں تھے پھر بھی مانگتے رہے ۔آج آپ وزیراعظم ہیں اور پھر بھی مانگ رہے ہیں۔ میرے پاس اس کا حل ہے ۔مجھے ملا قات کا وقت دیں ۔ اس پر کسی نے کچھ نہیں کہا لیکن یہ سن کرمسکرائے سبھی ۔ پروگرام کے آخر میں مشہورمذہبی شخصیت مولانا صاحب کی انٹری ہوئی ۔ لگتا ہے کہ انہیں زبردستی مدعو کیا گیا ورنہ یہ دعا تو مذہبی وزیر بھی کرا سکتے تھے آخر میں مولانا طارق جمیل نے دعا سے پہلے اچھی خاصی تقریر کر ڈالی ۔تقریر تو پہلے بھی فرماتے تھے لیکن اس روز کہا جاتا ہے جذبات پر کنٹرول نہ رکھ سکے لہذا وہ کچھ کہہ گئے جو اس موقع کی مناسبت سے ٹھیک نہ تھا جس کے بعد معافی مانگنا پڑی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے مزہ تو تب تھا کہ دعا کراتے ہوئے سننے والے بھی روتے مگر یہاں ایسے بھی نہ ہوا ۔ یہ بھی نہ کہا کہ جو کچھ مانگنا ہے در مصطفی سے مانگ ۔ اس روز کے بعد سے اور اب تک مولانا صاحب کے حق اور مخالفت میں تنقید جاری ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں ۔ کہتے ہیں کمان سے نکلا ہواتیر اور منہ سے نکلے ہوئے الفاظ پھر واپس نہیں آتے ۔ امیر المومنین امام علی ؓفرماتے ہیں ,,لفظ انسان کے غلام ہوتے ہیں اور جب ادا کر دیئے جائیں تو انسان ادا کئے ہوئے الفاظ کا غلام بن جاتا ہے،، کہا جاتا ہے پہلے تولے پھر بولو۔کہا جا رہا ہے سیاسی اور حکومتی لوگوں کے پاس جانے سے آپ عوام کی تنقید کا نشانے بنے اگر مولانا اپنے مذہبی حلقوں تک ہی اپنے آپ کو محدود رکھتے ۔ کسی حکومتی سیاسی شخصیات کے ہاں نہ جاتے نہ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانے کھاتے تو آج ایسا نہ ہوتا جیسے اب ہو رہا ہے۔ کہا جاتا ہے سب سے مشکل کام عزت بنانا اور پھر اس سے بھی مشکل کام عزت کو سنبھالنا ہوتا ہے ۔ انسان غلطیوں کا پتلہ ہے ۔ انسان سے ہی غلطیاں ہوتی ہیں ۔جس کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے پھرمعافی مانگ لے ایسے انسان بڑے عظیم ہوتے ہیں اوروہ بھی عظیم ہوتے ہیں جو دوسروں کی غلطیاں سرزد ہونے پر انہیں معاف کر دیتے ہیں۔ ساحر لدھیا نوی کا کہنا ہے
بے تاب دھڑکتے سینوں کا ارمان بھرا پیغام ہے یہ
قدرت نے جو ہم کو بخشا ہے وہ سب سے حسین انعام ہے یہ
اچھوں کو برا ثابت کرنا دنیا کی پرانی عادت ہے
آئیں اب اس پرانی عادت سے کنارہ کشی اختیار کر لیں ۔بہتر اور اچھا یہی ہے کہ ہم دوسروں کی خوبیوں کو اجاگر کریں اس سے معاشرہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا ۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024