خلیج جنگ کے دہانے پر
سعودی عرب کے زیر تعمیر ایک عالمی شہر نیوم میں سعودی ولی عہد ،امریکی وزیر خارجہ ،اسرائیلی وزیر اعظم اور موساد کے چیف کے درمیان ہونے والی حالیہ ایک اہم ترین ملاقات کے فوراً ہی بعد ایرانی ایٹمی پروگرام کے خالق ڈاکٹر محسن فخری زادہ کو نشانہ بنانے سے پورے خلیج میں جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں اس واقعہ کے دو دن بعد ہی ایک ایرانی کمانڈر کو عراق اور شام کی سرحد کے قریب ڈرون کے ذریعے نشانہ بنا کر ہلاک کر دینے سے صورتحال کی سنگینی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے ایرانی قیادت نے اس تمام تر صورتحال کے لیے اسرائیل کو ذمہ دار قرار دیا ہے اگرچہ ڈھکے چپے انداز میں سعودی عرب کی طرف بھی انگلیاں اٹھائی گئی ہیں تاہم دنیا کو بطور خاص ایرانی قیادت کی طرف سے عرب امارات کے ولی عہد کو سنگین نتائج کی دھمکی دینے کے براہ راست فون پر زیادہ حیرانی ہوئی ہے کیونکہ توقع یہ کی جا رہی تھی کہ ایران اپنے ان دو انتہائی اہم جنازوں کے لیے امریکہ ،اسرائیل اور سعودی عرب کو ذمہ دار قرار دے گا امریکہ اور اسرائیل پر حملہ کرناتو ایران کے لیے ممکن نہیں ہے اس لیے وہ یمن کے حوثیوں کے ذریعے سعودی سر زمین پر اپنا رد عمل دے گا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ پچھلے ایک ہفتے کے دوران سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کے حوالے سے مکمل طور پر خاموش ہیں جو بہرحال کسی نہ کسی شکل میں ایک اہم پیش رفت ہے جس پر دنیا بھر کے لوگ تبصرہ اور تجزیہ بھی کر رہے ہیں۔ دریں اثناء امریکی بحری بیڑا اپنے ساٹھ جنگی طیاروں کے ساتھ خلیج فارس پہنچ چکا ہے تا کہ اگر ایران کسی خلیجی ریاست یا اسرائیل کو نشانہ بنائے تو اس بحری بیڑے کا ڈراوا دیکر یا تو اسے روکا جاسکے یا پھر ضرورت پڑنے پرایران کو جواب دیا جاسکے اسرائیل نے صورتحال کی نزاکت کے پیش نظر اپنے شہریوں کے لیے عرب امارات اور بحرین میں داخلے پر پابندی لگا دی ہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ ایران ،بحرین یا عرب امارات پر حملہ کر سکتا ہے بعض میڈیا ذرائع یہ بھی بتا رہے ہیں کہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے اپنے ولی عہد کو امور مملکت سے کچھ فاصلے پر کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب نے اب پچھلے چند دنوں کے دوران ترکی اورقطر کے ساتھ اپنے معاملات کافی حد تک درست کرنے کی کوشش کی ہے سعودی عرب ترکی سے اس کے ڈرون بھی خرید رہا ہے جبکہ سعودی آرامکو تیل کمپنی ترکی میں سرمایہ کاری بھی کرنے جا رہی ہے سعودی عرب سفارتی ذرائع استعما ل کرتے ہوئے پاکستان اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید بگڑنے سے روکنے کا فیصلہ کر چکا ہے یہی وجہ ہے کہ ایران نے عرب امارات اور بحرین کو نشانہ بنانے کاتو اعلان کیا ہے لیکن خلاف توقع سعودی عرب کا نام نہیں لیا ۔ بہرحال آنے والے دنوںکے دوران خلیج میں کشیدگی مزید بڑھتی ہوئی دیکھی جاسکتی ہے ممکن ہے کہ اسرائیل خود ہی کسی سازش کے تحت بحرین یا عرب امارات میں کوئی ایسا ڈرامہ رچالے جس کا الزام ایران پر لگا کر اس پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی جائے کیونکہ اسرائیل کی پوری پوری کوشش ہے کہ صدر ٹرمپ کے جانے اور جو بائیڈن کے آنے سے پہلے پہلے وہ کسی نہ کسی طرح ایرانی ایٹم تنصیبات ،ایرانی میزائل فیکٹریاں اور ایرانی ائیر ڈیفنس سسٹم کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا کر ایران کو کئی سال پیچھے دھکیل دیا جائے عالمی تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ دوبڑے جنازے اٹھانے کے باوجود ایران کی خاموشی اس کی بصیرت کا عملی اظہار ہے کیونکہ ایران جو بائیڈن کے آنے تک انتظار کر نے کو ترجیح دے رہا ہے۔