پولیس ایسا بدنصیب محکمہ ہے کہ رشوت، لوٹ مار اور تشدد کا سلسلہ سال کے بارہ مہینے اور دن رات جاری رہتا ہے ۔ لگتا ہے، کسی نے اس محکمہ کو بد دعا دے رکھی ہے کہ اس ادارے میں کام کرنے والے ظلم اور زیادتی کے حوالے ہی سے پہچانے جائیں گے۔ مثِل مشہور ہے کہ ایک گندی مچھلی سارے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے، محکمہ پولیس کا المیہ ہے کہ اس تالاب میں ایک یا دو نہیں بیشتر مچھلیاں گندی ہیں اور جو چند اچھی مچھلیاں موجود ہیں وہ اپنی عزت اور آبرو بچانے کی فکر میں کھڈے لائن لگ کر وقت گزارتی ہیں۔ ایسے فرض شناس، دیانت دار ، خوف خدارکھنے والے اور ہر قسم کی سختیاں اور محرومیاں برداشت کر کے رزقِ حلال کمانے والے یہ پولیس ملازمین جہاں کہیں بھی ہوں ، عام لوگ ہی نہیں خود اُن کے ساتھی ملازمین بھی یہ کہتے ہیں ، ’’یقین ہی نہیں آتا ایسے لوگ بھی محکمہ پولیس میں ہو سکتے ہیں‘‘۔ یہ درست ہے کہ باصلاحیت اور فرض شناس ہونا بہت بڑی خوبی کی بات ہے ، مگر بنیادی بات تو ایمان داری ، دیانت داری اور خدا خوفی ہوتی ہے۔ اسی خوبی کی کمی عموماً پولیس ملازمین میں پائی جاتی ہے۔ لاہور میں کچھ پولیس افسران، ملازمین ایسے مثالی بھی ہیں جو محنت کرتے نظر آتے ہیں خاص طور ایس ایس پی آپریشن جو نسل درنسل دشمنی اور قتل و غارت کا خاتمہ چاہتے ہیں اُن کے مطابق کرپشن اور غلط اقدامات کو روکنا پولیس کی بنیادی ضرورت ہے ۔ شہریوں سے غلط سلوک محکمے کی تمام کارکردگی پر پانی پھیر دیتا ہے۔ پولیس ملازمین کے اس بگاڑکی بنیادی وجہ اُنہیں کسی احتساب یا ایکشن کے خوف کے بغیر وسیع اختیارات دینا ہے ان اختیارات سے وہ کسی بھی شریف شہری سے ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں اور اس قسم کا طرزِ عمل اپناتے ہیں جو سر اسر قانون کی کھلی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔ قانون کا محافظ ہی قانون شکنی پر اُتر آئے تو سسٹم صیحح طریقے سے کیسے چل سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس والوں کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر عزتِ نفس مجرو ح کرنے سے لے کر بہمیانہ تشدد سے شہریوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے تک، اور کسی قانون کی خلاف ورزی نہ ہونے کے باوجود حراست میں رکھنے اور جھوٹا مقدمہ درج کرنے سے جعلی پولیس مقابلے تک، ہر قسم کی شکایات سننے کو ملتی ہیں۔ کبھی کبھی اعلیٰ پولیس افسروں کے خوش کُن، بیانات پڑھنے کو ملتے ہیں، ظلم اور زیادتی کرنے والے پولیس ملازمین کے خلاف کبھی ایکشن بھی ہوتا ہے، جبکہ ان واقعات کی تعداد بہت زیادہ ہے ، جن میں رشوت لی جاتی ہے۔ ظلم تشدد ، ناانصافی اور زیادتی ہوتی ہے اور جھوٹے بے بنیاد مقدمات قائم کر کے جیل بھجوانے اور جعلی پولیس مقابلے میں پار کر کے اُوپر پہنچانے تک پولیس ملازمین جلاد کا کردار ادا کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں اور وہ کسی بھی کارروائی سے صاف بچ نکلتے ہیں۔ پولیس ریکارڈ موجود ہے ، جس کے ذریعے بتایا جاسکتا ہے کہ اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے پر کارروائی ہوئی ، مگر جب حساب لگایا جاتا ہے کہ جن معاملات میں ایکشن لیا گیا، اُن کے مقابلے میں وہ واقعات کتنے ہیں، جن میں کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوئی، کسی نے نوٹس نہیں لیا (اخبارات اور ٹی وی چینلزکی نشان دہی کے باوجود) معلوم ہوتا ہے کہ وہ کارروائی اور ایکشن تو آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ سوال یہ ہے کہ پولیس ملازمین چاہتے کیا ہیں؟کہا جاتا تھا کہ تنخواہیں ، مراعات اور سہولتیں بہت کم ہیں اور ڈیوٹی چوبیس گھنٹے ہوتی ہے، ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیئے رشوت لی جاتی ہے۔ مسلسل بے آرامی اور ٹینشن کی وجہ سے چڑچڑا پن پیدا ہوتا رہتا ہے اور اُس کا نشانہ شریف اور بے گناہ شہری بنتے ہیں۔ اس لیئے کار کردگی بہتر نہیں ۔ اگر صرف پنجاب کا حوالہ دیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اربوں روپے محض پولیس ملازمین کے شکوے شکایات ختم کرنے کے لیئے ہر سال خرچ کیئے جارہے ہیں۔ کانسٹیبل سے لے کر انسپکٹر اور ڈی ایس پی سے لیکر آئی جی تک انتہائی معقول طریقے سے مالی مراعات دی جا رہی ہیں ، متروک اور فضول اسلحہ کی بجائے جدید اسلحہ اور بُلٹ پروف جیکٹس سے لیکر پتھرائواور گیس سے بچنے کیلئے آلات تک مہیا کئے گئے ہیں۔ پٹرولنگ اور چھاپوں کے لیئے آرام دہ اور تیز رفتار گاڑیاں بھی دی گئیں۔ ڈیوٹی کے واقعات میں بھی کمی کر دی گئی ہے۔ہنگامی ڈیوٹی کے دوران مشروبات چائے اور کھانے وغیرہ پہنچانے کا خصوصی اور لازمی انتظام بھی کیا جاتا ہے ۔ حتیٰ کہ ہر دور حکومت میں اس ادارے کی فرمائشیں پوری کی جاتی رہیں اس کے باوجود پولیس ملازمین کی کارکردگی کے حوالے سے مایوسی کا اظہار ہوتا ہے ۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024