اسحاق ڈار پیش نہ ہوئے، وارنٹ برقرار، وعدہ معاف گواہ سعید احمد نے احتساب عدالت بیان ریکارڈ کرادیا
اسلام آباد (نامہ نگار) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے میڈیکل سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈارکی حاضری سے استثنیٰ اور نیب کی جانب سے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے نا قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی درخواستیں مستردکرتے ہوئے ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار رکھنے کا حکم دے دیا ہے۔ عدالت نے نیب کو میڈیکل سرٹیفکیٹ کی تصدیق کرانے کی ہدایت کردی ہے جبکہ احتساب عدالت نے اسحق ڈار کے اثاثے منجمد کرنے کے نیب فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے ماہانہ چھ لاکھ روپے ذاتی اخراجات کی مد میں دینے کی اسحق ڈار کی استدعا بھی مسترد کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت 8نومبر تک ملتوی کر دی ہے، دوسری جانب نیشنل بینک کے صدر سعید احمد اسحاق ڈار کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں اور انہوں نے احتساب عدالت میںاپنا بیان ریکارڈ کرادیا ہے۔ جمعرات کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اسحاق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثے رکھنے کے حوالے سے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ریفرنس کی سماعت کی اور ان کے وکیل خواجہ حارث اس سماعت پر بھی عدالت نہیں پہنچے، عدالتی استفسار پر بتایا گیا مصروفیت کے باعث خواجہ حارث آج پیش نہیں ہوں گے۔ عدالت میں ان کی معاون وکیل عائشہ حامد عدالت پیش ہوئیں۔ عائشہ حامد نے عدالت کو بتایا کہ اسحاق ڈار اور خواجہ حارث لندن میں موجود ہیں۔ عائشہ حامد نے وفاقی وزیرِ خزانہ کی بیرونِ ملک ہسپتال کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جس کے مطابق وزیرِ خزانہ اس وقت بیمار ہیں اور 4 منٹ سے زیادہ کھڑے نہیں رہ سکتے۔ عدالت کے سامنے پیش کی جانے والی میڈیکل رپورٹ میں مزید لکھا تھا کہ اسحق ڈار دل کے عارضے میں بھی مبتلا ہیں جبکہ ڈاکٹروں نے انہیں انجیوگرافی کروانے کی تجویز دی ہے۔انکی 3نومبر کو لندن میں انجیو گرافی ہوگی۔ ڈاکٹروں کی اجازت کے بعدمعلوم ہوگا اسحاق ڈار کب واپس آئیں گے، ٹیسٹ سے معلوم ہوگا اسحاق ڈار کی سرجری ہونی ہے یا نہیں، اس لئے عدالت حاضری سے استثنیٰ دیا جائے۔ نیب کے پراسیکیوٹر عمران شفیق نے اسحق ڈار کی میڈیکل رپورٹ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ میڈیکل رپورٹ کسی نجی ہسپتال سے بنوائی گئی ہے جبکہ اسے عدالت کے قوانین کے تحت بھی عدالت میں جمع نہیں کروایا گیا،جج محمد بشیر نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ رپورٹ بھجوانے کا درست طریقہ کیا ہے؟ جس پر نیب پراسیکیوشن کی طرف سے بتایا گیا کہ میڈیکل رپورٹ برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کی جانب سے موصول ہونی تھی۔ نیب پراسیکیوٹر نے اسحاق ڈار کو حاضری سے استثنی کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ میڈیکل رپورٹ تسلیم نہیں کی جا سکتی، اس میں کسی بیماری کا ذکر نہیں، گرفتار ملزمان کی انجیو گرافی بھی یہاں سے کروائی جاتی ہے، قندیل بلوچ قتل کیس میں ملزم مفتی قوی کی پاکستان میں انجیو گرافی کی گئی اور یہ ایک نجی ڈاکٹر کی رپورٹ ہے اور میڈیکل رپورٹ میں کہی نہیں لکھا کہ ملزم کو کیا مرض لا حق ہے، ملزم کے میڈیکل رپورٹ کی تفتیش کروائی جائے۔ عدالت نے اسحاق ڈار کے ضامن کو روسٹرم پر طلب کر کے اسحاق ڈار کے بارے میں استفسار کیا، ضامن احمد علی قدوسی نے جواب دیا کہ اسحاق ڈار لندن میں زیر علاج ہیں، جس پر عدالت نے انہیں تحریری موقف پیش کرنے کا حکم دیا جس کے بعد عدالت نے اسحاق ڈار کی وکیل کی طرف سے میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر استثنیٰ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر تے ہوئے مقدمے کی سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کر دیا۔ وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے نیب کی ناقابل ضمانت گرفتاری کی استدعا اور اسحاق ڈار کی استثنی کی درخواست مسترد کر دی اور ملزم کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار رکھے۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ اسحاق ڈار کے تین ایکٹیو اکاونٹ ہیں، تینوں اکاونٹس میں رقم بھی موجود ہے،گھر اور پلاٹ بھی اسحاق ڈار کا اثاثہ ہے، اسحاق ڈار کی اہلیہ ان کی زیر کفالت ہے،پاکستان میں دو کمپنیوں میں اسحاق ڈار کے شیئرز ہیں، اسحاق ڈار کے دبئی میں ولا اور اپارٹمنٹ ہیںاوراسحاق ڈار کے بیرون ملک تین کمپنیوں میں شیئرز ہیں، استغاثہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں شہریوں کے اثاثوں کو منجمد کرنے کا اختیار نہیں لیکن عدالت اماراتی حکومت کو اثاثے منجمد کرنے کی درخواست بھیج سکتی ہے۔ نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ عدالت یو اے ای حکومت کو درخواست بھیجے گی جبکہ وہاں کی مقامی عدالت اس پر اپنا فیصلہ سنا سکتی ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اسحاق ڈار کی اسلام آباد میں 16 ایکڑ اراضی، دبئی میں ایک بنگلا، دو کمپنیوں میں شیئرز اور پانچ گاڑیاں ہیں جس پر فاضل جج نے استفسارکیا کہ یہ پراپرٹیز 2007کی ہیں؟ اسحاق ڈار کی وکیل نے کہا کہ یہ تمام جائیدادیں 2003کی ہیں جو کہ 2007میں نہیں رہیں، اثاثے منجمد کرنے کا حکم چیئرمین نیب ریفرنس دائر ہونے سے پہلے دے سکتے ہیں۔ ریفرنس دائر ہونے کے بعد اثاثے منجمد نہیں کیے جا سکتے۔ اس حوالے سے عدالتی حوالہ جات بھی موجود ہیں، معاون وکیل عائشہ حامد کی طرف سے نیب آرڈیننس کے سیکشن 23کا حوالہ دیا گیا۔ پراسیکیوٹر نیب نے جوابی دلائل میں کہا کہ چیئرمین نیب کسی بھی وقت اثاثے منجمد کرنے کا حکم دے سکتے ہیں، ریفرنس دائرہو تو عدالت سے توثیق مانگی جاتی ہے۔ احتساب عدالت نے اسحق ڈار کے اثاثے منجمد کرنے کے نیب فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے ماہانہ چھ لاکھ روپے ذاتی اخراجات کی مد میں دینے کی اسحق ڈار کی استدعا بھی مسترد کر دی اور مقدمے کی سماعت 8نومبر تک ملتوی کر دی۔ نیب کی پراسیکیوشن ٹیم اور کیس کے 4 گواہان عدالت میں موجود تھے۔ واضح رہے کہ کیس کے کل 28 گواہان میں سے اب تک صرف 3پر ہی جرح ہوسکی ہے۔ دوسری جانب نیشنل بینک کے صدر سعید احمد وعدہ معاف گواہ بن گئے۔ احتساب عدالت میں سعید احمد نے بیان ریکارڈ کرایا ہے، سعید احمد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ڈار کمپنی نے بتائے بغیر میرے نام پر لاہور کے بینکوں میں 5فارن کرنسی اکائونٹس کھولے، اکائونٹس کا مجھے بتایا بھی نہیں گیا۔ سعید احمد نے کہا کہ چوری شدہ شناختی کارڈ پر اکائونٹس کھولے گئے، میرے جعلی دستخطوں پر اکائونٹ کھولے گئے۔ نیب نے بیان کی روشنی میں اکاونٹ اوپنگ فارم کا فرانزک ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کر لیا۔ نیب کی انوسٹی گیشن ٹیم نے وزیرخزانہ کے نئے اثاثوں کا کھوج لگا لیا ہے۔