پنجاب اور خیبر پی کے میں انتخابات کے التواء کا منصوبہ؟
پاکستان کے دو صوبوں پنجاب اور خیبر پی کے کی اسمبلیوںکی تحلیل کے بعد دونوں صوبوں میں نگران حکومتیں تشکیل پا چکی ہیں جنہوں نے باقاعدہ کام شروع کر دیا ہے۔ آئین کی رو سے نگران حکومت اپنی تشکیل کے بعد 90 دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کی ذمہ دار ہے۔ آزادانہ‘ شفاف اور منصفانہ انتخابات الیکشن کمشن آف پاکستان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ چنانچہ اس کا تمام انتظام و انصرام الیکشن کمشن ہی کرتا ہے۔ البتہ اس فرض کی ادائیگی میں نگران حکومت اسے مکمل سہولت اور تعاون فراہم کرنے کی پابند ہوتی ہے۔
پنجاب اور خیبر پی کے کے گورنروں نے (جو وفاقی حکومت کے نمائندے تصور ہوتے ہیں) اپنے صوبے میں الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے سیکرٹری الیکشن کمشن‘ سپیکر اسمبلی اور دیگر متعلقین کو کم و بیش ایک ہی مفہوم کے حامل مراسلے بھیج دیئے ہیں۔
گورنر پنجاب بلیغ الرحمن نے الیکشن کمشن کو لکھے خط میں کہا ہے کہ ملک کی موجودہ سکیورٹی اور معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے تمام متعلقہ سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے‘ تاہم انہوں نے اس کے ساتھ یہ لکھنا ضروری بھی سمجھا کہ ’’جب بھی ضرورت پڑے‘ میرا آفس آ ئین اور قانون کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دے گا۔‘‘
اسی طرح گورنر خیبر پی کے حاجی غلام علی نے بھی صوبے میں انتخابات کے انعقاد کی تاریخ سے متعلق الیکشن کمشن کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ خیبر پی کے میں عام انتخابات کے انعقاد سے قبل امن و امان کی صورتحال کو مدنظر رکھا جائے۔ انہوں نے صوبے میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انتخابات کے انعقاد سے قبل قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رائے لی جائے۔ صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے تاریخ دینے سے قبل تمام فریقین کو اعتماد میں لیا جانا ضروری ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قبل ازیں گورنر خیبر پی کے کے سیکرٹری کی جانب سے الیکشن کمشن کو بھجوائے گئے مراسلہ میں صوبے میں عام انتخابات کیلئے اپریل کی 16 تاریخ تجویز کی گئی تھی۔جس سے بعد ازاں گورنر کے پی کے نے لاعلمی کا اظہار کر دیا۔
پنجاب اور خیبر پی کے کے گورنرز کی طرف سے الیکشن کمشن کو بھیجے گئے مراسلوں میں چونکہ الیکشن کمشن کو الیکشن کی تاریخ کے بارے میں تحریر نہیں کیا گیا‘ اس لئے عوامی سطح پر گزشتہ دنوں سے انتخابات کے التواء سے متعلق افواہیں گردش کر رہی تھیںوہ بادی النظر میں درست ثابت ہونے لگیں۔ اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ وفاقی حکومت اور الیکشن کمشن آف پاکستان آئینی مدت کے اندر انتخابات کے انعقاد کیلئے آمادہ و تیار نہیں ہیں، جس کیلئے ملک کی معاشی صورتحال اور امن و امان کی مخدوش حالت کو جواز بنایا گیا ہے جو بادی النظر میں درست بھی معلوم ہوتا ہے۔ جہاں تک آئینِ پاکستان کا تعلق ہے‘ اس میں اس امر کی گنجائش موجود ہے کہ اگر آئینی مدت میں انتخابات کے انعقاد کے نتیجے میں امن و امان کی صورتحال پیدا ہوتی ہے یا معاملات مزید بگاڑ کی طرف جا سکتے ہیں توانتخابات کے شیڈول میں رد و بدل کیا جا سکتا ہے۔ویسے بھی ملک کی دگر گوں اقتصادی اور مالی صورت حال میں خطیر انتخابی اخراجات سے بچنے کے لیے پورے ملک میں ایک ہی دن انتخابات کے انعقاد کا ڈول ڈالا جانا چاہئے۔چند ماہ کے وقفوں کے ساتھ ایک ہی سال میں دو بار عام انتخابات کا انعقاد ایک مشکل ٹاسک ہوگا کیونکہ الیکشن کمشن کو اتنے وسائل ہی دستیاب نہیں۔ کراچی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات اس حقیقت کے شاہد ِ عادل ہیں کہ ملک کے ایک محدود حصے میں انتخابات بھی اپنی ساکھ برقرار نہیں رکھ سکے اور ان پر انگلیاں اٹھائی گئیں ۔
اس میں شک نہیں کہ پنجاب اور خیبر پی کے کے گورنر پی ڈی ایم کے مقرر کردہ ہیں اس لیے ان کی سوچ اور انداز فکر پی ڈی ایم ہی کی سوچ سے مطابقت رکھتا ہے ۔ کیونکہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے سربراہوں نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات میں بھی پنجاب اور کے پی کے میں انتخابات میں تاخیر کا عندیہ دیا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ بھی ملک کی معاشی بدحالی اور اس کے نتیجے میں کمر توڑ مہنگائی ہی بیان کی گئی تھی جس نے عام آدمی کیلئے تن و جان کا رشتہ برقرار رکھنا ناممکن بنا دیا ہے۔ اس تناظر میں حکومت مخالف جذبات بڑھ رہے ہیں۔جنہیں بھانپ کر حکومت فوری انتخابات کی جانب جانے سے گریزاں ہو سکتی ہے۔
حکومتی پالیسی سازوں کی سوچ یہ ہو سکتی ہے کہ تحلیل کی گئی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کسی آئینی موشگافی کے ذریعے مؤخر کرا کے ملک میں قومی اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے ایک ہی روز انتخابات کروائے جائیں ۔اس لیے کے پی کے اور پنجاب کے گورنروں کی جانب سے بھجوائے گئے مراسلوں کا یہی مطمح نظر ہو سکتا ہے تاکہ جو وقت یا مہلت میسر آئے ہیں اس کے دوران ملک کی معیشت میں بہتری لانے کی کوشش کی جائے۔ اس حکمت عملی کے تحت ممکنہ طور پر قرضوں کی بنیاد پر حاصل ہونے والی رقوم سے عوام کو بھی کچھ نہ کچھ ریلیف دیا جائے گا تاکہ عوام کے ذہنوں میں حکومت کے خلاف پیدا ہونے والی بدگمانیوں کا ازالہ کیا جا سکے اور اس دوران عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو مختلف مقدمات میں اس قدر الجھا ئے رکھا جائے۔
ہم سمجھتے ہیں سیاسی طورپر اپنے حق میں فضا ہموار کرنا اور انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے دائو پیچ کھیلنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے‘ تاہم اس امر کو بہرحال ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہئے کہ ان کے کسی بھی عمل سے سسٹم کو گزند نہ پہنچے اور یہ اسی صورت ممکن ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز میں اتفاق رائے پیدا ہو۔ انتخابات کے التواء کا فیصلہ اگر یک طرفہ ہوا تو یہ خود حکمرانوں کے گلے پڑ سکتا ہے۔تحریک ِ انصاف اور ان کے ہم خیال اسے ٹھنڈے پیٹوں کیسے قبول کریں گے۔وہ اس پر نہ صرف قانونی راستہ اختیار کریں گے بلکہ سڑکوں پر مظاہرے بھی کریں گے۔ایسی صورت میں جو انتشار ،بدامنی اور خلفشار پیدا ہو گا وہ بالآخر ماضی کی طرح جمہوریت کی بساط الٹائے جانے پر منتج ہو سکتا ہے۔سیاسی قیادتوں کو جمہوریت کی عملداری کو سبوتاژ کرنے کا لیبل خود پر لگوانے سے بہرصورت گریز کرنا چاہئے ۔ اگر کل کو انہوں نے پھر ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر بحالی ٔ جمہوریت کی تحریک چلانی ہے توجمہوریت کو بچائے رکھنا زیادہ بہتر حکمت عملی ہے۔