11مئی 2013ءکو منعقد ہونے والے عام انتخابات کا مےدان سج گےا ہے اگرچہ الےکشن کمےشن کے پاس 250 سےاسی جماعتےں رجسٹر کرائی گئی ہےں جن مےں سے بےشتر سےاسی جماعتےں ”تانگہ پارٹی “ہےں تاہم مجموعی طور پر 47 سیاسی جماعتیں عام انتخابات مےں حصہ لے رہی ہیں جن میں 8 مذہبی جبکہ 8 سے زائد سیکولر جماعتیں شامل ہےں۔ ملک بھر میں سب سے زےادہ امےدوار مسلم لےگ (ن) ، پےپلز پارٹی اور تحرےک انصاف نے کھڑے کئے ہےں جبکہ جماعت اسلامی ،جمعےت علماءاسلام(ف)،متحدہ دےنی محاذ، تحرےک تحفظ پاکستان ،پاکستان سنی تحرےک سمےت دےگر جماعتوں کے امےدواروں کی قابل ذکر تعداد انتخابی معرکے مےں حصہ لے رہی ہے۔ پاکستان کی سےاسی تارےخ کا ےہ پہلا الےکشن ہے جس مےں کوئی بڑا انتخابی اتحاد قائم نہےں ہو سکا صرف متحدہ دےنی محاذ اور سندھ مےں 10جماعتی اتحاد قائم ہوا ہے اور پےپلز پارٹی نے مسلم لےگ (ق) کے ساتھ صرف سےٹ اےڈجسٹمنٹ کر رکھی ہے ۔ انتخابات میں مسلم لےگ(ن) ،تحرےک انصاف، جماعت اسلامی سمےت تمام جماعتےں اپنے اپنے انتخابی نشان پر حصہ لے رہی ہےں۔ جماعت اسلامی الیکشن میںمسلم لےگ (ن) اور تحرےک انصاف مےں سے کسی اےک کے ساتھ سےٹ اےڈجسٹمنٹ چاہتی تھی لےکن دونوں جماعتوں نے ”نادےدہ قوت“ کے اشارے پر سےٹ اےڈجسٹمنٹ نہےں کی لہذا جماعت اسلامی تنہا انتخاب لڑ رہی ہے ۔مسلم لےگ (ن) نے اےک طے شدہ حکمت عملی کے تحت اپنے آپ کو مذہبی جماعتوں سے دور رکھا ہے اور ےہ بات قابل ذکر ہے کہ عام انتخابات میں مسلم لیگ کے8 دھڑے حصہ لے رہے ہیں۔ جن میں مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق)، مسلم لےگ(فنکشنل)، مسلم لیگ (جونیجو)، آل پاکستان مسلم لیگ، عوامی مسلم لیگ ، ، مسلم لیگ (حقیقی) اور مسلم لیگ ( ضےا) شامل ہیں۔12 جماعتوں نے صرف ایک ایک امیدوار کھڑا کیا ہے اگرچہ اس وقت مجموعی طور پر مسلم لےگ (ن) کو دےگر جماعتوں پر برتری حاصل ہے اور وہ سےاسی افق پر اکثرےتی جماعت بن کر ابھرے گی۔ تاہم سےاسی پنڈتوں کا دعویٰ ہے کہ مسلم لےگ (ن) کے واحد اکثرےتی جماعت بننے کے امکانات کم ہےں ۔ عام انتخابات میں کثےر تعداد مےں آزاد امیدوار بھی حصہ لے رہے ہیں لہذا کامےابی سے ہمکنار ہونے والے آزاد امےدواروں کا حکومت سازی مےں کلےدی کردار ہو گا ہزارہ کو صوبہ بنانے کی حامی تےن جماعتےں صوبہ ہزارہ پارٹی، ہزارہ عوامی اتحاد پاکستان اور ہزارہ قومی محاذ بھی حصہ لے رہی ہےں اس طرح جنوبی پنجاب اور بہاولپورکے صوبہ بنانے کی حامی جماعتےں بھی انتخاب لڑ رہی ہےں تاہم اےک بات واضح ہے پےپلز پارٹی اپنی تمام تر کوشش کے باوجود جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانے کے شوشہ کو انتخابی نعرہ نہےں بنا سکی۔ صوبہ خےبر پختونخوا،بلوچستان اورسندھ مےں دہشت گردی کے حالےہ واقعات نے انتخابی مہم بری طرح متاثر کی ہے کالعدم تحریک طالبان پاکستان مختلف شہروں مےں ہونے والے دھماکوں کی ذمے داری قبول کر رہی ہے کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان حسان اللہ احسان کے مطابق ان کی مجلس شوریٰ نے مسلم لیگ (ن)، جمعیت علماءاسلام (ف) ، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف پر حملے نہ کرنے کا فےصلہ کےا ہے ۔ اگرچہ کالعدم تحرےک طالبان جمہوریت کو کلی طور پر کفر کا نظام سمجھتی ہے اس کے باوجود اس نے صرف پےپلز پارٹی ،عوامی نےشنل پارٹی اور اےم کےو اےم کو ٹارگٹ بنا رکھا ہے ۔ نشانہ بننے والی جماعتےں اپنے انتخابی دفاتر تک محدود ہو کر رہ گئی ہےں ۔دوسری جانب عدلےہ نے صدر آصف علی زرداری کو اےوان صدر تک محدود کر کے رکھ دےا ہے۔ اگرچہ پےپلز پارٹی کی اعلی قےادت نے اعلان کےا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری ” وڈےو لنک“ کے ذرےعے انتخابی مہم چلائےں گے لےکن وہ بھی بوجوہ انتخابی مہم نہےں چلا سکے پےپلز پارٹی کی انتخابی مہم ” بے چہرہ “ہو گئی ہے۔ پنجاب جو پاکستان مسلم لےگ (ن)کا پاور بےس ہے کے مےدانوں اور رےگستانوں مےں ”انتخابی جنگ“ لڑی جا رہی ہے سندھ اور بلوچستان مےں کوئی بڑا اپ سےٹ نظر نہےں آتا تاہم تحرےک انصاف پنجاب کو مسلم لےگ (ن) سے چھےن کر قومی سطح پر اس کے میڈیٹ کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جہاں مسلم لےگ (ن) کے 59فےصد ووٹ بنک کے مقابلے مےں تحرےک انصاف کی قوت محض18فےصدبیان کی جاتی ہے۔ مےاں نوازشرےف اور عمران پنجاب کے طول وعرض مےں بڑے بڑے جلسے منعقد کر رہے ہےں دونوں پےپلز پارٹی کی ”عدم مقبولےت “ سے پےدا ہونے والا سےاسی خلاءپر کرنے کی کوشش کر ر ہے ہیں پنجاب مےں تحرےک انصاف مسلم لےگ (ن) کو شکست تو نہ دے سکے گی البتہ وہ صوبے مےں پےپلز پارٹی کی جگہ لے سکتی ہے۔ اگر چہ خےبر پختونخوا مےں مسلم لےگ (ن) اور تحرےک انصاف سرفہرست ہےں تاہم پورا صوبہ انتخابی نتائج کے لحاظ سے منقسم دکھائی دےتا ہے صوبے مےں کوئی پارٹی واضح اکثرےت حاصل نہےں کر سکے گی۔ مختلف اداروں کی جانب سے کئے جانے والے گےلپ سروے کے مطابق مجموعی طور پر مسلم لےگ(ن) قومی اسمبلی کی 100سے 120نشستےں لے سکتی ہے جب کہ پےپلز پارٹی جس کا بڑا ووٹ بنک سندھ مےں ہے وہاں اس کی پوری قوت مجتمع ہے وہ اندرون سندھ بےشتر نشستےں دوبارہ حاصل کرنے مےں کامےاب ہو جائے گی پےپلز پارٹی 50 سے 60 جبکہ تحرےک انصاف 30 نشستں حاصل کر سکتی ہے۔ ماضی مےں عام انتخابات مےں ٹرن آﺅٹ 40 سے 45فےصد کے لگ بھگ رہا ہے سےاسی تجزےہ کاروںکا کہنا ہے اگر ٹرن آﺅٹ 50فےصد سے زائد ہوا تو اس کا فائدہ تحرےک انصاف کو ہو گا سروے رپورٹ کے مطابق 40فےصد ووٹرز اےسے ہےں جن کی اولےن ترجےح مسلم لےگ(ن) ہے ےہ 40فےصد لوگ کسی بھی حلقے مےں انتخابی نتائج پر اثر اندازہو سکتے ہےں ۔انتخابی مہم مےں ےہ بات خاص طور پر نوٹ کی گئی ہے تحرےک انصاف کے چےئرمےن عمران خان اپنے انتخابی جلسوں سے خطاب مےں مےاں نواز شرےف کے بارے میں جان بوجھ کرجارحانہ انداز مےں بعض اوقات اخلاقی حدود بھی عبور کر جاتے ہےں ۔ ان کے ذہن پر” شےر“ کس حد تک چھاےا ہوا ہے اس کا ثبوت ان کی جانب سے اپنی تقرےر مےں” شےر“کو ووٹ دےنے کی اپےل ہے۔ وہ نواز شرےف پر ذاتی حملے کرنے سے بھی گرےز نہےں کرتے انہیں ” ڈرپوک اور گےدڑ “ کا طعنہ دےنے پر عمران خان کو الےکشن کمےشن میں اس بات کی وضاحت بھی کرنا پڑی ہے کہ انہوں نے مےاں نوازشر ےف کو کبھی ”گےڈر“ نہےں کہا صرف انکی پارٹی پالےسوں پر تنقےد کی ہے۔ عمران خان اپنے دوسرے سےاسی حرےف مولانا فضل الرحمن کے خلاف بھی سخت زبان استعمال کر رہے ہےں ےہی وجہ ہے مولانا فضل الرحمنٰ کی جانب سے بھی عمران کو سخت جواب دےا جارہا ہے۔ اس انداز خطاب سے نوجوان وقتی طور پرخوش تو ہو سکتے ہےں لےکن اس سے سےاست مےں جو تلخےاں پےدا ہوں گی شاےد ان کو ختم کرنے مےں کئی سال لگ جائیں۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024