آج کل انڈیا میں ان کے جنرل انتخابات کا چرچا ہے۔ گھمسان کا رن پڑا ہے۔ لیکن سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے امیدوار پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنا کر ووٹ حاصل کرنے کی راہ پر چل پڑے ہیں جبکہ پاکستان کو ان کے اندرونی معاملات سے سروکار ہی نہیں۔ اور نہ پاکستان کے سیاست دان الیکشن میں انڈیا کا نام ہی استعمال کرتے ہیں حالانکہ پاکستان کا سب سے سنگین مسئلہ پانی ہے اور پاکستان کے دریائوں پر بھارت بتدریج قبضہ کرتا چلا جا رہا ہے۔
پاکستان کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ متنازع مسائل مذاکرات کی میز پر ہی حل ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک دوسرا موضوع ہے۔ ہم بات کر رہے ہیں بھارت کے پانچ صوبوں میں اسمبلی چنائو کی…
اس وقت انڈیا کی دو بڑی پارٹیاں آمنے سامنے میدان جنگ کا نقشہ پیش کر رہی ہیں۔ کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) دونوں پارٹیوں کے درمیان لفظی جنگ اور الزام تراشی اخلاقیات کی حدوں کو بھی پار کر گئی ہے۔ کہتے ہیں کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ اب یہ محاورہ یوں تبدیل ہو چکا ہے کہ سیاست اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ انڈیا کا ایک بڑا اخبار لکھتا ہے ’’چنائو 2013ء کا سواگت ہے جس میں غیر اخلاقیات کا بول بالا ہے۔ دیش بھگت سے دیش دشمن تک۔‘‘
آگے چل کر اخبار لکھتا ہے اس کھیل کی شروعات کانگریس نے کی جس نے مودی کو ہٹلر جیسا ڈکٹیٹر کہا اور نازی پرچار کا حوالہ دیا جس میں ہٹلر کے وفادار ساتھی روڈولف ہیس نے اعلان کیا تھا کہ جرمنی ہٹلر ہے اور ہٹلر جرمنی ہے۔ اس کا جواب نریندر مودی نے یہ کہہ کر دیا 1975ء میں صدر کانگریس بروا نے یہ الفاظ کہے تھے کہ انڈیا از اندرا، اندرا از انڈیا۔ کون پارٹی ڈکٹیٹر ہے جس کے اندر نازی رجحانات ہیں۔‘‘
جب کانگریس نے اپنا پرانا آزمودہ فارمولہ سیکولرازم والا آزمایا تو مودی نے جھٹ جواب دیا کہ کانگریس کے سیکولر ازم کے سینڈیکیٹ کو مایوسی کا ڈینگو ہو گیا ہے۔
اس وقت کانگرس کے راہل گاندھی اور بھاجیا کے نریندر مودی آمنے سامنے ہیں۔ تجربے اور عمر کے فرق کے باوجود بعض معاملوں میں وراثت کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ نریندر مودی پر بھی بڑے رقیق حملے کئے جا رہے ہیں۔ ماضی میں انہوں نے 16مسلمانوں کو ایک کمرے میں بند کر کے زندہ جلا دیا تھا۔ گجرات کے خونیں فسادات کا الزام بھی آج کل دہرایا جا رہا ہے۔
ایک کانگرسی وزیر نے بھاجیا کے پردھان منتری عہدے کے امیدوار کو خونیں انسان بھی کہہ دیا۔ مووی نے ترنت اس کے جواب میں کہہ دیا ہمیں چھتیس گڑھ کو خونی پنجے سے بچانا ہے۔ (باور رہے کہ کانگریس کے چنائو کا نشان ہاتھ ہے۔ یہ اشارہ اس طرف تھا)
دوسری طرف کانگریس کے ایک لیڈر نے کہا چائے بیچنے والا بھارت کا پردھان منتری نہیں بن سکتا۔ نریش اگروال نے کہا کہ بھیڑ تو ایک مداری بھی اکٹھی کر لیتا ہے۔
اس کا جواب بھی مودی نے کرارا دیا۔ اور کہا دیش بیچنے سے اچھا ہے چائے بیچنا…
نریندر مودی نے خود اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ وہ ریل کے اندر چائے بیچا کرتا تھا۔
مودی نے یہ بھی کہا ’’یہ دیش مہاتما گاندھی کے تئیں بہت شردھا رکھتا ہے۔ کیا آپ گاندھی جی کا سپنا پورا کرنا چاہتے ہیں۔ گاندھی جی نے آزادی ملنے کے بعد کہا تھا۔ اب کانگریس کی ضرورت نہیں اسے ختم کر دینا چاہئے۔‘‘
جیل میں مقیم لالو یادو کی بیوی رابڑی دیوی نے بھی نریندر مودی کو راون کہہ دیا۔ کبھی کوئی مودی کی خفیہ شادی کی خبریں نکال لاتا ہے۔ کبھی اسے کنواروں کا سردار کہا جاتا ہے۔ مودی اپنی بقا کی جنگ جم کر لڑ رہے ہیں۔ گولا بارود ان کے پاس بھی بہت ہے۔ انہوں ایک جلسے میں کہا کہ جمہوریت کے چار دشمن ہیں 1۔ پریوار واردادا یعنی کنبہ پروری، 2۔ جاتی واد یعنی ذات پرستی، 3۔ سمپر رائے واد یعنی فرقہ پرستی اور 4۔ اوسر واد یعنی موقع پرستی…
برصغیر کے اس حصے میں جہاں پاکستان انڈیا بنگلہ دیش اور دوسرے سارک ممالک ہیں، یہ چاروں وبائیں پھیلتی جا رہی ہیں۔ نریندر مودی کا نشان کنول کا پھول ہے۔ جب نریندر مودی پر بہت کیچڑ اچھالا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کنول کا پھول کیچڑ میں کھلتا ہے۔ اس وقت انڈیا میں تقریباً 26کروڑ مسلمان بستے ہیں۔ جس طرف ان کا جھکائو ہوتا ہے اس پارٹی کے برسراقتدار آنے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ بعض سیاسی پارٹیاں انتخابات شروع ہوتے ہی سیکولرازم کا پرچار کرنے لگ جاتی ہیں۔ عام طور پر سب سے پہلے کانگریس ہی اپنا فارمولا سیکولراز بنام فرقہ پرستی اپناتی ہے۔
ایک اور چلن بن گیا ہے انڈیا میں کہ ووٹروں کو ان کے حلقوں میں طرح طرح کے لالچ دیے جاتے ہیں۔ اخبار ہند سماچار لکھتا ہے کہ حکمران پارٹیوں کی سرکاریں کرمچاریوں کے لئے مختلف مراعات اور عام لوگوں کے لئے لالچوں کا پٹارا کھول دیتی ہیں۔ مثلاً ٹیلی ویژن، ساڑھیاں، لیپ ٹاپ، منگل سوتر، چاول، تکلیف دہ امر یہ سامنے آ رہا ہے کہ جن کو لیپ ٹاپ دیے گئے ہیں انہیں استعمال کرنے نہیں آتے۔ بھلا نریندر مودی اس دوڑ میں پیچھے کیسے رہ سکتے ہیں۔ ان کے چاہنے والوں نے مودی برانڈ کی چیزوں کو بیچنے کے سٹور کھول لئے ہیں۔ ان میں سمارٹ فون سے لے کر ساڑھیوں تک، کرتے، مٹھائیاں اور بچوں کے لئے کھلونے اور بسکٹ وغیرہ بھی ’’مودی منتر‘‘ برانڈ کے نام سے بیچے جائیں گے۔
سیاسی تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں 2013ء کے دہلی اسمبلی انتخابات میں دو بڑے سیاسی کھلاڑیوں کا جادو دیکھنے کو ملے گا۔ ایک پردھان منتری عہدے کی بھاجیا امیدوار نریندر مودی ہیں جنہوں نے گذشتہ مہینے راجدھانی میں بہت بڑی ریلی نکال کے اپنا دبدبہ قائم کیا کرپشن کے مسئلے کو لے کر خوب شور مچا لیا۔ ’’عام آدمی پارٹی‘‘ انڈیا کی ایک نئی سیاسی پارٹی ہے جسے مختصر طور پر ’’آپ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ پارٹی پہلی بار الیکشن میں اتر رہی ہے۔ 2008ء کے چنائو میں کانگریس کو 40.31فیصد ووٹ ملے تھے اور دوسرے نمبر پر آنے والی پارٹی بھاجیا کو 36.84فیصد ووٹ ملے تھے۔ چونکہ عام ہندوستانی کا خیال ہے کہ گذشتہ دور میں کانگریس کی حکومت کوئی کارنامہ انجام نہیں دے پائی۔ مہنگائی کرپشن، لاقانونیت، بجلی کی کمی، پانی کا مسئلہ، لاء اینڈ آرڈر کانگریس کوئی مسئلہ حل نہیں کر پائی۔ اس نے مایوس کیا ہے۔ فی الحال تو ساری پارٹیاں میدان میں اتری ہیں۔ کسی کے بارے میں پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی۔ انتخابات ایک ایسا میزان ہے کہ آخری لمحوں میں بھی پانسہ پلٹ جاتا ہے۔ کانٹے دار مقابلہ بی جے پی اور کانگریس میں ہے۔ قومی راجدھانی میں خاص طور پر کانگریس اور بھاجیا میں ٹکر ہو گی۔ اگر بھاجیا مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں پھر سے چنائو جیت جاتی ہے تو اسے دونوں صوبوں کے مکھیہ منتریوں کی کامیابی ہی جانا جائے گا اور اگر راجھستان میں اقتدار کانگریس کے ہاتھوں سے چھین لیتی ہے تو اس کا کریڈٹ سابق مکھیہ منتری و سندھرا راجے کو جائے گا۔
’’آپ‘‘ کے زیادہ تر امیدار اس بار کھیل بگاڑنے کا رول اداکریں گے۔
پاکستان دعا گو ہے ہمسایہ ملک اس مرحلے سے بطریق احسن گزر جائے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024