امریکہ جس آئی ایس آئی پر الزامات لگاتا تھا حقانی گروپ سے مذاکرات کے لئے اسی کی طرف رجوع پر مجبور ہے: نیو یارک ٹائمز
نیویارک (نمائندہ خصوصی + نیوز ایجنسیاں) امریکی حقانی نیٹ ورک سے امن سمجھوتہ کرنے کیلئے اسی آئی ایس آئی کے ساتھ رجوع کرنے پر مجبور ہوگیا جسے وہ افغانستان میں امریکیوں پر حملے بڑھنے کے حوالے سے موردالزام ٹھہراتا رہا ہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق آئی ایس آئی کے بعض عناصر کو مذاکرات کیلئے زیادہ فعال ہونے میں کوئی فائدہ دکھائی نہیں دیتا۔ انکے خیال میں عسکریت پسندوں کا اپنے طرزعمل پر قائم رہنا افغانستان سے امریکی انخلاءکے بعد پاکستان کا اثرورسوخ برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے۔ اس حکمت عملی کا اظہار کابل میں امریکیوں پر حملوں کا سلسلہ بڑھنے سے بھی ہوتا ہے۔ اخبار کے مطابق اوباما انتظامیہ افغان جنگ کے خاتمے کیلئے مفاہمتی عمل پر آئی ایس آئی کی مدد کا خواہش مند ہے۔ کابل میں امریکی سفارتخانے پر حملے میں آئی ایس آئی پر طالبان کی مدد کا الزام حقائق پر مبنی نہیں تھا بلکہ یہ حقانی نیٹ ورک کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے امریکی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ اخبار کے مطابق عسکریت پسندوں سے مذاکرات کے حوالے سے خود امریکی انتظامیہ کے اندر بھی شکوک پائے جاتے ہیں۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی حکومت نے افغانستان میں اپنی حکمت عملی تیار کر رکھی ہے اور اس سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ ہلےری کلنٹن کے ساتھ کئی نکات پر خاصے اختلافات سامنے آئے ہیں۔ ایک امریکی عہدیدار نے پاکستان کی پالیسی کو جنگ بندی، بات چیت اور امریکیوں کے انخلاءتک انتظار کی پالیسی سے تعبیر کیا ہے۔ امریکی اخبار کا کہنا ہے کہ صدر اوباما اور انکی انتظامیہ کے ارکان مائیک مولن سے پاکستان کیخلاف بیانات پر ناراض تھے اسلئے نہیں کہ وہ غلط تھا بلکہ اس لئے کہ اس سے پاکستانیوں میں غصہ بڑھ گیا۔ امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ مفاہمت کی بات چیت میں مرکزی کردار ادا کرینگے۔ امریکہ نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ حقانی نیٹ ورک کے بارے میں انٹیلی جنس اطلاعات فراہم کرے اور حقانی نیٹ ورک کے ارکان کو گرفتار اور ان سے تعلقات کم کرے۔ اخبار نے دعویٰ کیا کہ امریکہ نے عراق سے انخلاءکے بعد خلیج فارس میں فوج بڑھانے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔