کب ہو گی تیری شنوائی اے بندہ مزدور
آئمہ محمود
یکم مئی جہاں دنیا کے ایک خطے میں بہار کا پیغام لے کر آتا ہے وہیں 80 سے زائد مماک میں محنت کشوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتاہے۔ 1886ء میں امریکہ کے شہر شکاگو میں مزدوروں نے اپنے حقوق کی جدوجہد میں جو لازوال قربانی دی یہ دن ان بے خوف، مستحکم ارادوں اور لگن کے پکے محنت کشوں کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں ورکرز کو آج جو حقوق حاصل ہیں یہ امریکہ سے شروع ہونے والی اسی مزدور تحریک کے ثمرات کا نتیجہ ہے۔ 1886ء کی مزدور جدوجہد جو کہ 8 گھنٹے کی تحریک کے طور پر بھی جانی جاتی ہے مزدوروں کا مطالبہ تھا 8 گھنے کام، 8 گھنٹے تفریح اور8 گھنٹے آرام۔ پاکستان میں صدیوں کی جدوجہد کے بعد حاصل کئے گئے محنت کشوں کے حقوق آمریت اور سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے باعث چھین لئے گئے ہیں۔ آج محنت کش 12 سے 16 گھنٹے کام کرنے کے باوجود حکومت کی مقرر کردہ کم از کم اجرت سے بھی محروم ہیں۔ پاکستان اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کے باعی لیبر اور انسانی وسائل کے حوالے سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے CIA world factbook کے مطابق پاکستان کی کل لیبر فورس 57.2 ملین ہے جو کہ اسے میسر افرادی قوت کے حوالے سے دنیا کا نواں بڑا ملک ہونے کا درجہ دیتی ہے۔ کل لیبر فورس کا 43 فیصد زراعت، 20.3 فیصد صنعت اور 36.6 فیصد دیگر شعبوں سے منسلک ہے۔ جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک نے مقابلے میں سب سے زیادہ چائلڈ لیبر پاکستان میں ہے۔ پسماندہ اور بے پناہ مسائل کا شکار طبقہ مزدور خواتین پر مشتمل ہے۔ خواتین کی صورت میں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو انتہائی سستی فرمانبردار اور خاموش لیبر مل گئی ہے۔ برطانیہ کے ایک ادارے نیو اکنامک فائونڈیشن کی تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ محنت کش جنہیں نچلے درجے کا یا جن کے کام کو معمولی خیال کیا جاتا ہے مثلاً آیا گھریلو ملازمین اور صفائی ستھرائی کرنے والے درحقیقت انتہائی قدر و قیمت کے حامل ہوتے ہیں۔ معاشرے میں جو وہ
خدمات سرانجام دیتے ہیں وہ اس تنخواہ سے کئی گنا زیادہ ہیں جو انہیں ادا کی جاتی ہے ان کے مقابلے میں اعلیٰ اجرتیں اور مراعات پانے والے شعبے جو کام کرتے ہیں اس کی افادیت ان اجرتوں کے مقابلے میں حد درجہ کم ہوتی ہے جو وہو حاصل کرتے ہیں۔ ان حقیقتوں کے سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم پاکستان میں محنت کشوں کو حالت زار پر نظر ڈالیں تو زراعی ہوم بیسڈ اور گھریلو ملازمین پر قوانین محنت لاگو نہیں اور نہ ہی یہ ورکرز منظم ہیں۔ صنعتی مزدوروں میں صرف 3 فیصد مزدور منظم ہیں اور خواتین کی تعداد ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ ملکی معیشت میں ان کا اہم کردار ہونے کے باوجود غیر رسمی شعبے کے محنت کشوں کے حقوق کے لئے نہ تو حکومتی سطح پر کوئی قابل ذکر کاوش نظر نہیںآتی ہے اور نہ ہی ٹریڈ یونین کی سطح پر۔ مگر موجودہ پنجاب حکومت مزدوروں، سماجی تنظیموں کے مطالبے اور بین الاقوامی تقاضوں کے پیش نظر غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والے ان محنت کشوں جن میں بڑی تعداد خواتین کی ہے کو قانونی تحفظ فراہم کرنے پر غور کر رہی ہے اور مزدوروں کے عالمی دن پر پنجاب حکومت پہلی پنجاب لیبر پالیسی کی تیاری سے پہلے مزدور تنظیموں اور ٹریڈ یونین سے بھی مشا ورت کی گئی۔ توقع کی جاتی ہے کہ حکومت محنت کشوں کے حقوق کی فراہمی کیلئے نہ صرف قانون سازی کرے بلکہ قوانین کے عملی نفاذ کو بھی یقینی بنائے۔