مشہور فرانسیسی مفکر روسو نے کہا تھا :Man is born free but everywhere he is in chainsانسان آزاد پیدا ہوا تھا لیکن وہ ہر طرف زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہ زنجیریں جبر و استبداد کی ہیں۔ یہ زنجیریں ظلم اور زیادتی کی ہیں۔ یہ زنجیریں ناروا پابندیوں کی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ انسان ازل سے ہی صید زبوں شہر یاری رہا ہے۔ انسان کی انسان کو غلام بنانے کی حرص اور ہوس نے کبھی دم نہیں توڑا۔ الغرض آدمی کا شیطان شیطان آدمی رہا ہے۔ گو ابراہیم لنکن نے غلامی ختم کر دی تھی لیکن عیار عقل نے معاشی غلامی ختم نہ ہونے دی۔ سرمایہ دار نے مزدور سے مویشیوں جتنی محنت اور مشقت کروائی لیکن اسے پیٹ بھر کھانا نصیب نہ ہوا۔ دختران حوا تار تار کو ترستی رہیں۔ کھلے آسمان تلے سونا ان کا مقدر ٹھہرا۔ احتجاج انسان کی سرشت میں ہے اور اس کا پیدائشی حق بھی۔ احتجاج کی ایک ایسی ہی لہر یکم مئی 1886ءکو شکاگو سے اٹھی تو سرمایہ دارانہ نظام حرکت میں آ گیا۔ گولیوں کی تڑتڑ سے فضا گونج اٹھی۔ چار سو بارود کی بو پھیل گئی۔ سینکڑوں بے گناہ لوگوں نے اپنے ہی خون کی صراحی سے جام شہادت نوش کیا۔ گہ یہ خون خاک نشیناں تھا لیکن رزق خاک نہ بن سکا۔ اس کی خوشبو چاردانگ پھیل گئی۔ یہ نوک خنجر اور آستینوں پر بدنامی کے مستقل داغ چھوڑ گیا۔ شکاگو کے محنت کشوں نے عزم و ہمت کی ایک ایسی تاریخ رقم کی جس نے مغربی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ کارل مارکس نے DAS CAPITALلکھ کر سرمایہ دارانہ نظام پر ایک کاری ضرب لگائی۔ From each one according to his capacity to everyone according to his needsاہل مغرب کی اکثریت نے گو کمیونزم کو قبول نہ کیا لیکن مزدور کو اس کے جائز حقوق دینے میں ہی انہیں عافیت نظر آئی۔ چنانچہ ایک فلاحی مملکت کا نظریہ وضع کیا گیا۔ جس کا لب لباب یہ تھا کہ ہر شخص کو ریاست اتنا سامان فراہم کرے جس سے اس کی بنیادی ضروریات پوری ہو سکیں۔ اگر کوئی شخص بے روزگار ہے تو بے روزگاری الاﺅنس دیا جائے۔ اس کے بچوں کو مفت تعلیم دی جائے۔ بے گھر کو مکان فراہم کیا جائے۔ اور کم سے کم اتنی تنخواہ جس سے وہ شخص ایک باعزت زندگی بسر کر سکے۔ زندگی کی دوڑ میں برابر کے مواقع بھی فراہم کئے جائیں۔ ویلفیئرسٹیٹ کا قیام اسی صورت میں عمل میں آ سکتا ہے۔ اگر حاکم ایمان دار ہوں۔ ان کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو، اقربا پروری سے کوسوں دور ہوں۔ قومی دولت کو شیر مادر نہ سمجھیں۔ قانون کی حکمرانی ہو۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگ باشعور اور منظم ہوں۔ اپنے برے بھلے میں تمیز برت سکتے ہوں۔ پیشہ ور لیڈروں کے منہ میں لگام ڈال سکیں جو نہ صرف ظلم سہنے سے یکسر انکار کر دیں بلکہ ظالم کے گریبان میں ہاتھ ڈالنے سے بھی نہ ڈریں۔ قتیل شفائی مرحوم نے درست کہا تھا کہ اس سے بڑا ظالم اور کوئی نہیں ”جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا“۔ سب سے بڑی بات یہ کہ ان میں مومن کی سی فراست ہو۔ مومن کی نشانی یہ ہے کہ وہ ایک سوراخ سے دو بار ڈسا نہیں جا سکتا۔ جو جعلی امیرالمومنینوں کو بخوبی پہچانتا ہو۔ جو ان کی حرکات و سکتا پر کڑی نگاہ رکھتا ہو۔ آج ہم جبکہ یوم مئی منا رہے ہیں تو ہمیں چند بنیادی باتوں کا خیال رکھنا ہو گا۔ اتفاق سے یکم اور گیارہ مئی آمنے سامنے آ کھڑے ہوئے ہیں۔ یکم مئی یوم احتجاج ہے۔ گیارہ تاریخ یوم احتساب ہے۔ قوم کو اس دن ان ظالموں، لٹیروں، ڈاکوﺅں اور جعلسازوں کا گریبان پکڑنا ہے۔ ان سے نجات حاصل کرنی ہے جنہوں نے برس ہا برس سے ملک کو لوٹ کھسوٹ کر اس کی بنیادیں اکھاڑ دی ہیں۔ اسے اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ اس کی معیشت کی چولیں ہلا دی ہیں۔گِدھوں اور کووں کی طرح اس کے جسم کو چیرا ہے، پھاڑا ہے اور نوچا ہے۔ اس میڈیا ایج میں کوئی بات بھی ڈھکی چھپی نہیں رہ سکتی۔ وہ کون لوگ ہیں جن کے ساری دنیا میں محلات ہیں۔ وہ کون ہیں جن کے سوئس بنکوں میں اربوں ڈالر پڑے ہیں۔ ISLE OF MAN میں قارون کے خزانے کس نے کھڑے کئے ہیں؟ ایک سے دو، دو سے چار اور چار سے چالیس ملیں کس نے کب بنائی ہیں؟ یہ وہ ”مردان حق“ ہیں جن کی اخباروں میں رنگین، خوبصورت تصویریں چھپتی ہیں۔ وقفے وقفے سے ٹی وی اشتہارات آتے ہیں جن کے شب و روز کے قصے شاہوں کو بھی شرماتے ہیں۔ جن کا دربار کاسہ لیسوں، جی حضوریوں اور خوشامدی شعرا سے بھرا ہوتا ہے۔ ویسے تو ان کی فیکٹریاں ہر جنس بناتی ہیں لیکن آج کل وہ سفوف تیار کر رہی ہیں جس کی ایک چٹکی ہی ذہن کو ماﺅف اور ضمیر کو ہر خلش سے آزاد کر دیتی ہے۔ ایک نعرہ جو ہمہ وقت ورد زبان رہتا ہے ”اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو“ یہ سمجھتے ہیں کہ اس غریب نے کبھی نہیں اٹھنا۔ خواب غفلت نے اسی طرف چلنا ہے جس سمت ان کی انگلی اٹھے گی۔ وہی کرنا ہے جو ان کا منشا ہو گا۔ ان کا خیال ہے کہ قوم تھک چکی ہے۔ اس میں زندہ رہنے کی امنگ اور ترنگ ختم ہو گئی ہے۔ ہوس گل کا تصور میں بھی کھٹکا نہ رہا عجب آرام دیا ہے پروبالی نے انہیں ملک و قوم کی ترقی کے لئے آجر اور اجیر میں مثالی تعلقات ہونے چاہئیں۔ اس کے بغیر معیشت مضبوط نہیں ہو سکتی۔ مل مالک کو اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ مزدور اس کا ذاتی نوکر نہیں ہے بلکہ ایک اعتبار سے حصہ دار ہے۔ اگر وہ مطمئن ہو گا اس کا پیٹ بھرا ہو گا اس کی عزت نفس مجروح نہیں ہو گی تو وہ پیداوار بڑھانے کے لئے زبادہ محنت کرے گا۔ حتی الوسع جانفشانی سے کام میں مگن ہو گا۔ اس لئے اسلام نے بھی محنت کی عظمت کا درس دیا ہے۔ واضح احکامات ہیں مزور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے دو لیکن پسینہ بھی بہنا چاہئے! ان چند الفاظ میں مذہب حقہ نے پورا CODE OF ETHICS پیش کر دیا ہے۔بدقسمتی سے ہماری قومی زندگی میں عدم توازن ہے۔ مالک و مزدور میں شک و شبہات کی ایک دیوار کھڑی ہے۔ ہمیں اس دیوار کو بہر طور پر گرانا ہے۔ کیونکہ سلامتی کا یہی واحد راستہ ہے۔ تعمیر و ترقی کا مضبوط زینہ ہے۔ فیکٹریاں بند کرنے، ملیں جلانے اور نتیجتاً بے روزگار ہونے سے کہیں بہتر ہے کہ وہ بندہ اور بندہ نواز آپس میں بغل گیر ہو جائیں۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024