یہ بے صبری کیسی ؟
بات ایوبی دور سے بات شروع کرتے ہیں۔اچھی بھلی حکومت چل رہی تھی ، جس میں عوام خوش تھے مہنگائی تھی مگر نہ ہونے کے برابر ،ہر ادارہ اپنے اپنے دائرہ میں رہ کر فرائض انجام دے رہا تھا ،سیاسی جماعتیں و مذہبی جماعتیں بھی تھیں مگر وہ شور شرابے کے حق میں نہیں تھیں اور اپنے اپنے طور حکومت پرغصہ مگر احتیاط سے اتار نے میں ہی وقت گذارلیا کرتیں تھیں ۔ ملک کا سیاسی تالاب پرُسکوت اور ایک لحاظ سے پُر سکون بھی تھا مگر اچانک اُس وقت کے وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو نجانے کیا سوجھی کہ انہوںنے اس پُرسکون تالاب میں ایسا کنکر دے مارا کہ وہ دن گیا اور آج کا دن کہ ملکی سیاسی تالاب جو اب وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ایک بڑ سیاسی جوہڑ بن چکا ہے اور ایک آتشی لاوے کی طرح اُبل کر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ سیاسی استحکام ہے کہ کہیں دُور دُور تک خوردبینوں میں بھی دکھائی نہیں دے رہا ۔یہاں یہ بھی واضع کرتا چلیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کسی عوامی تکلیف مسئلہ یا عوامی مفاد کی خاطر اقتدار میں نہیں آئے تھے بلکہ ایوب خان مرحوم سے ذاتی پُرخاش یا بیرونی مداخلت جو بھی کہیں کی وجہ سے تحریک چلائی اور پھر جیسی کرنی ویسی بھرنی کہ اُن سے بھی اقتدار جنرل ضیاء الحق نے چھین لیا اور پھر (یہاں ہم نے جنرل یحییٰ کے دور کا بوجہ زکر نہیں کیا )مکافات عمل کہ جنرل ضیاء الحق بھی اقتدار وکو سینے سے چمٹا نہیں سکے اور وہ ایک فضائی حادثے کا شکار ہو گئے ۔اس کے بعدحالات نے ایسا پلٹاکھایا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو برسرِ اقتدار آگئیںمگر بہت کم عرصہ کیلئے ، اقتدار اُن سے بھی چھین کر میاں نواز شریف کی جھولی میں ڈال دیا گیا مگر خدا کا کرنا کہ نواز شریف سے بھی یہ اقتدار چھین کر دوبارہ بے نظیر بھٹو کے حوالے کر دیا گیا اور پھر یہ سلسلہ رُکا نہیں کہ بے نظیر بھٹوکو ایکبار پھر اقتدار سے محروم کر کہ دوبارہ میاں نواز شریف کے سر سجا دیا گیا مگر میاں نواز شریف کو بھی چین سے رہنے نہیں دیا گیا اور بہت کم عرصہ کے بعد انہیں بھی فارغ کر کہ جنرل پرویز مشرف اقتداری افق پر چھا گئے اور پھر کرُسی کا کھیل ملاحظہ ہو کہ پرویز مشرف کے ہاتھ بھی کچھ نہ آیا ، حالات نے ایکبار پھر نواز شریف کو عنان ِحکومت ہوالے کر دیا اور وہی پرویز مشرف جو انہیں ہٹا کر خود کرُسی پر برجمان ہوئے تھے جلا وطن کر دیئے گئے اور نواز شریف پھر چھا گئے اور ایسے چھائے کہ اپنی پانچ سالہ عوامی مینڈیٹ پوری کرتے دکھائی دے رہے تھے مگر مکافات عمل کہ اس بار عدلیہ کے زریعے اقتدار سے محروم کر دیئے گئے ۔ ا س بار میاں صاحب کی معزولی میں پی ٹی آئی کی نواز شریف مخالف مہم کا بھی بہت حد تک عمل دخل رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اب موجودہ صورتحال میں پی ڈی ایم کے پیلٹ فارم سے عمران خان حکومت کوچلتا کرنا چاہ رہی ہیں ۔ یہ امر قابل غور ہی نہیں حیران کن بھی ہے کہ 52سال پہلے شروع ہونے والے اس اقتدار ی رسہ کشی کے کھیل میں کہیں بھی کسی بھی موقع پر عوامی مسائل دکھ تکلیف یا مختصراً یہ کہ عوامی مفاد نظر نہیں آتا نہ ہی ملکی مفاد دور دور تک دکھائی دیتا ہے اگر نظر آتا ہے اور وہ بھی بالکل سامنے رکھے شیشے کی طرح تو وہ ذاتی مفاد ہے اور ذاتی انا َ ، اس کے سوا کچھ نہیں ۔اور بے چارے عوام کو دیکھیں کہ کس خلوص و محبت ،کس والہانہ لگاؤ سے ان سیاسی جماعتوں کے جلسے جلوسوں ریلیوں حتیٰ کہ سکھر سے اسلام آبار اورپھر خیبر سے کراچی تک کے لانگ مارچوں میں شریک ہو کر انہیں دوام بخشتے ہیں بلکہ اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ، اس سلسلے میں تازہ ترین مثال این اے 75سیالکوٹ ڈسکہ کی ہے علاوہ ازیں سانحہ کارداد اورسانحہ لیاقت باغ جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ درجنوں کارکنان بھی شہید ہوئے بھی ابھی تک زہنوں پر تازہ ہیں ۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو بھی سیاسی لڑائیاں ہیں عوامی نہیں بلکہ ذاتی سیاسی مفادات کے تابع ہوتیں چلی آرہی ہیں جن سے کوئی حاصل وصول نہیں ہوا سوائے ذاتی مفادات کے وہ بھی ناپائیدار۔پھر ستم بالا ستم کہ یہ سلسلہ ہنوزجاری و ساری ہے بالکل اسی طرح جس طرح پچاس سال پہلے شروع ہوا بلکہ پچاس بھی نہیں بانی ِ پاکستان محمد علی جناح کے دور ِ اقتدارسے جب اُنہیں ہسپتال لے جانے والی ایمبولینس میں ایندھن کے ختم ہونے کی باتیں منظر عا م پر آئیںتھیں۔مگر ہم نے وقت کی کمی کے باعث اس بحث سے دانستہ احتراز کر کہ بات ایوب دور ِ سے شروع کی اور وہ بھی مختصر۔ لہذا اس تمام تر صورتحال کو مدنظررکھتے ہوئے ہماری قومی راہنماؤں،سیاستدانوں سے اپیل ہے کہ اس سے پہلے کہ عوام اپنے مسائل کے حل کی خواہش دل میں لئے بے موت مارے جائیں اور ملکی سلامتی بھی کبھی نہ ٹل سکنے والے خطرات سے دوچار ہو جائے خدا را اقتدار ی رسہ کشی کے اس مکروہ ،ہم تو مکروہ ہی کہیں گے، کھیل کو اب یہیں روک دیںکیونکہ اس کھیل کو کہیں نہ کہیں کبھی نہ کبھی تو رُوکنا ہی پڑے گا تو کیوں نا آج ہی روک دیا جائے ۔اگر پی ٹی آئی یا عمران خان کل تک ایک منتخب حکومت کو قبل از وقت گرانے کی غلطی کرتے رہے ہیں ،اور یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے غلط کیا بھی ہے تو ہمیں یعنی آصف زرداری ،نواز شریف ،مولانا فضل الرحمان بلاول بھٹو مریم نواز سمیت کسی کو بھی اِ س غلطی کو دوھرانا نہیں چاہیے اور عوام پر رحم کرتے ہوئے موجودہ حکومت کو چاہے جیسی بھی ہے اپنی عوامی مینڈیٹ پوری کرنے دینا چاہیے ،ٹھنڈے دماغ اور وسیع النظری سے دیکھا جائے توجیسے تیسے کر کہ ڈھائی سال تو گذر ہی گئے ہیں مزید ڈھائی سال بھی گذرہی جائیں گے کہ( یہ اِن سب کے بھی مفاد میں ہے) اسی لئے انہیں موجودہ حکومت کو پورا موقع دینا چاہیے ،ممکن ہے عوامی وعدے پورے کر دکھائیں اور اگر نہیں تو انتخابات تو کہیں نہیںگئے اگلے انتخابات ، احتساب ثابت ہوجائیں گے جیسے ضمنی ثابت ہو رہے ہیں، تو یہ بے صبری کیسی ؟