امریکہ میں ہی تھا جب یہ خبر سنی کہ صدر ٹرمپ پاکستان اور بھارت کے بیچ کشمیر کے تنازع پر ثالثی کا کردار اد اکرنا چاہتے ہیں۔ یہ بات صدر ٹرمپ نے ایک ملاقات کے دوران کی جو وائٹ ہائوس میں وزیراعظم پاکستان عمران خان اور امریکی صدر کے درمیان ہو رہی تھی۔ ملاقات قریباً چالیس منٹ جاری رہی۔ ملاقات میں افغانستان کا مسئلہ زیر بحث آنا ہی تھا لیکن جب عمران خاں نے کشمیر کے مسئلے کو لیکر اپنی گفتگو کو آغاز کیا تو صدر ٹرمپ نے ایسی بات کہہ دی کہ پورے بھارت میں ہی صفِ ماتم بچھ گئی۔ بھارتی میڈیا صدر ٹرمپ کو جھوٹا قرار دینے لگا۔ بات یہ تھی کہ صدر ٹرمپ نے پاکستانی وزیراعظم اور میڈیا کی موجودگی میں کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہہ کر بھارتی وزیراعظم مودی نے کچھ عرصہ قبل جب اُن سے ملاقات کی تو خود انہوں نے کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کا کردار ادا کرنے کو کہا تھا۔ یہی وہ بات تھی جس کا چرچا پاکستان اور بھارت میں تو ہونا ہی تھاپوری دنیا میں بھی ہُوا۔ پاکستان نے تو ثالثی کی بات پر امریکہ کے کردار کو سراہا اور اس پیش کش کو نا صرف قبول کیا بلکہ اطمینان بھی ظاہر کیا کہ اگر امریکی ثالثی کے ذریعے برصغیر ایشیاء کا یہ 70سالہ دیرینہ تنازع حل ہو جاتا ہے تو ایشیاء پوری طرح پُرامن ہو جائے گا۔
پاکستان اور بھارت کے بیچ ہر وقت خطرے کے جو بادل منڈلاتے رہتے ہیں ، اس ثالثی سے ہمیشہ کیلئے اُس سے نجات مل سکتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کوئی عام ملک نہیں۔ دونوں ہی ایٹمی قوت ہیں اور دونوں کے پاس بڑی تعداد میں مہلک اور تباہ کن میزائل ہیں۔ جنگ ہوتی ہے تو یہ جنگ خطّے کے ایک ارب سے زیادہ لوگوں کیلئے تباہی لا سکتی ہے۔ جنگ تو ویسے بھی تباہی کی علامت ہوتی ہے۔ ایٹمی جنگ ہو جائے تو کتنی تباہی ہو سکتی ہے ، اسکے تصور سے ہی روح کانپ جاتی ہے۔پاکستان نے ہمیشہ امن کی بات کی ہے لیکن بھارت کی طرف سے مثبت جواب نہ ملا۔ بھار ت نے بات چیت یا مذاکرات کو کھٹائی میں ڈالنے کیلئے جو بھی رویہ اختیار کیا پاکستان نے اُسکے جواب میں صبرو تحمل اور برداشت کی پالیسی اختیار کئے رکھی۔ دنیا نے بھی مانا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے۔ عالمی قوانین پر عمل کرتا ہے۔ معاملہ برداشت سے باہر ہونے لگے، تب بھی معاملے کو برداشت سے باہر نہیں ہونے دیتا۔اگرچہ بھارت کی جانب سے سرحدی خلاف ورزی اور ہر طرح کی چھیڑ خانی معمول کا قصّہ ہے۔ ہمارے سرحدی علاقوں کے لوگ بھارتی افواج کی گولہ باری اور راکٹوں کے حملے سے بڑی تعداد میں زخمی اور شہید بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان ان کارروائیوں کا بھارت کو مؤثر جواب بھی دیتا ہے۔ لیکن بھارت ہے کہ باز ہی نہیں آتا۔ اُسکا جنگی جنون جب سر چڑھ کر بولتا ہے تو وہ پاکستان پر ہوائی حملے بھی کر دیتا ہے جس کا مؤثر جواب دیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب اُس نے دوبار پاکستانی حدود میں داخل ہو کر ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی ۔تو پاکستانی فضائیہ نے اُن حملوں کا ناصرف منہ توڑ جواب دیا بلکہ ایک کارروائی کے دوران بھارت کے دو لڑاکا طیارے بھی مار گرائے۔ ایک بھارتی پائلٹ بھی ہماری تحویل میں آیا۔ جسے کچھ دن زیر حراست رکھنے کے بعد خیر سگالی کے جذبے کے تحت چھوڑ دیا گیا۔ جس سے دنیا کو یہ مثبت پیغام ملا کہ پاکستان واقعی ایک امن پسند ملک ہے۔ جنگ کو ہر گز پسند نہیں کرتا لیکن اگر اُس پر جنگ مسلط کر دی جائے تو وہ جواب دینے سے بھی باز نہیں آتا۔ اس کا مظاہرہ بھارت ہی نہیں، پوری دنیا بھی دیکھ چکی ہے۔اللہ کے فضل سے ہماری تینوں افواج کے پاس لڑنے کی بہترین پیشہ ورانہ صلاحیت موجود ہے۔ محاذ زمینی ہو، فضائی یا سمندری، وہ ہر جگہ، ہر مقام پر دشمن کو زیر کرنے اور اُسے منہ توڑجواب دینے کی بھرپور قوت رکھتی ہے۔ بھارت کو بھی متعدد بار زور آزمائی کرنے کے بعد اس کا اندازہ ہو چکا ہے کہ پاکستان سے ٹکرانا کوئی آسان بات نہیں، نہ ہی پاکستان کوئی ایسا ہدف ہے جسے بالکل ہی آسانی سے عبور کیا جا سکے۔ کشمیر …ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔ 1948ء میں اقوام متحدہ کی اس حوالے سے ایک قرار داد بھی موجود ہے۔ جس میں کشمیر کو متنازع قرار دیا گیا ہے اور متفقہ طور پر تسلیم کیا گیا ہے کہ کشمیریوں کو استصواب رائے کے ذریعے جینے کا جمہوری حق دیا جائے۔ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا آزاد ریاست کے طور پر اپنے جینے کا حق چاہتے ہیں، ووٹ کی پرچی اس کا فیصلہ کر سکتی ہے لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی ہے کہ وہ کشمیریوں کو اُنکا جمہوری، سماجی اور قانونی حق دینے کیلئے تیار نہیں۔ اسی لیے جمو ں و کشمیر میں ایک طویل عرصے سے آزادی کی تحریک چل رہی ہے۔ حریت کے متوالے کشمیری نوجوان ناصرف اپنی ریاست کی آزادی کیلئے بندوق اٹھائے ہوئے ہیں بلکہ اس آزادی کیلئے اپنی جانوں کی قربانی بھی دے رہے ہیں۔
کشمیر نے ایک دن آزاد ہونا ہے، تاریخ نے یہ رقم کر دیا ہے، کیونکہ خون ہمیشہ رنگ لاتا ہے اور کشمیریوں کا خون بھی رائیگاں نہیں جائیگا۔ صدر ٹرمپ نے کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کی جو پیش کش کی ہے پاکستان نے اُسے سراہا ہے اور پذیرائی بخشی ہے لیکن بھارت اب بھی ہٹ دھرمی کی جانب بڑھ رہا ہے اور امریکہ صدر کی پیش کش کے جواب میں اُس کے لبوں پر مہر کا لگ جانا ثابت کرتا ہے کہ بھارت کو نا بین الاقوامی قوانین کا کوئی احترام ہے اور نا ہی وہ امن کا داعی ہے۔ وہ ہر حال میں افراتفری چاہتا ہے۔ اُس کا یہ غیر فطری طرزعمل خود اُسکے اپنے لئے کتنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کا اندازہ ہوتے ہوئے بھی وہ خود کو اس عمل سے دور رکھنا چاہتا ہے لیکن یہ لکھا جا چکا ہے کہ کشمیر نے آزاد ہونا ہے اور وہ دن بہت قریب ہیں۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024