وکلاء قائداعظم کے کردار سے رہنمائی لیں
چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے گزشتہ روز لاء کالج لاہور کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وکیل کنڈکٹ درست کر لیں تو کوئی اُن پر اُنگلی نہیں اُٹھا سکتا، ایک زمانے میں وکلا کی بڑی عزت تھی مگر رویہ بدلنے سے فرق آیا ہے۔ اُنہوں نے اس نقطے کو ایک مثال سے واضح کرتے ہوئے بتایا کہ میرے والد مرحوم نے تقریباً 55 سال تک وکالت کی، وہ سائیکل پر عدالت جاتے تھے، ہر کوئی ان کی عزت کرتا تھا۔ دریں اثنا وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی ملتان بار کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جس معاشرے میں انصاف نہ ہو وہ پیچھے رہ جاتے ہیں جبکہ قانون اور انصاف کی عملداری کو یقینی بنانے میں وکلا برادری کا کردار کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔
فاضل چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وکلاء اور انصاف کے حوالے سے بڑی خیال افروز باتیں کی ہیں۔ بلاشبہ وکلاء کی عزت انکے پیشے سے معاشرے کی خدمت کے باعث ہے۔ مگرگزشتہ برسوں میں وکلاء سے ایسے افعال بھی سرزد ہوئے ، جو اس معزز پیشے کے شایان شان نہیں تھے، مرضی کے فیصلے لینے کیلئے ججوں سے نامناسب رویہ اختیار کرنا‘اُنہیں کمروں میں بند کرنا ، توڑ پھوڑ کرنا، یا پولیس سے اُلجھ پڑنا، قانون کو ہاتھ میں لینے کے مترادف ہے۔ قانون ہاتھ میں لینے والی چیز نہیں بلکہ یہ عدل کی بنیاد ہے اور احترام کا تقاضا کرتی ہے لہٰذا اس کی حد درجہ عزت ہونی چاہئے۔ فیصلے زور بازو سے لینے کی بجائے مؤکل کے حق میں دلائل لائیں ۔ قانون کے حوالے دیں، ماضی کے فیصلوں کی نظیریں پیش کریں، تیاری کر کے آئیں۔ مقدمے کے دو فریقوں میں کوئی ایک ہی حق پر ہوتا ہے۔ یہ تو ریاضی کے کلیے کی روسے بھی غلط ہے کہ دونوں فریق حق پر ہوں لیکن مقدمہ اُسے ہی جیتنا چاہئے اور جج کو اُسی فریق کے حق میں فیصلہ دینا چاہئے جس کے وکیل نے محنتانہ کو حلال کیا ہے، محنت کی ہے دلائل جمع کیے ہیں۔ بار اور بنچ کے مابین تعاون انصاف کی عملداری کیلئے اولین شرط ہے۔ وکلاء حضرات ماضی کے وکیلوں اور نامور ججوں کے فیصلوں کا بغور مطالعہ کریں ۔ اگر توفیق ملے تو قائد اعظم کی زندگی کے اُس حصے کا خاص طور پرمطالعہ کریں ، حب اُنہوں نے ہندوستان اور انگلستان کی اعلیٰ عدالتوں میں پریکٹس کی ، یقیناً اس مطالعہ سے وہ ایک ایسی رہنمائی حاصل کر سکیں گے جو اُنہیں بھٹکنے نہیں دے گی۔ قانونی قابلیت اور دلائل کی صلاحیت مل کر ایک ایسی غیر مرئی قوت کی صورت اختیار کر لیتے ہیں کہ جج خودبخود مسحور ہو جاتا ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے اپنے مختصر مگر جامع خطاب میں وہ سب کچھ بتا دیا ہے جس پر عمل سے ملک میں قانون کی بالادستی قائم‘ عدلیہ مضبوط اور عوام کو کسی ظلم کا خطرہ نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ڈاکٹروں اور وکیلوں کے پیشے کو معاشرے میں اہم حیثیت قرار د کر دراصل یہ بتایا ہے کہ جس طرح ڈاکٹر مریض کی صحت کو اولین ترجیح دیتا ہے اور لواحقین کی دعائیں سمیٹتا ہے ، اسی طرح وکیل بھی محروم طبقے کے لیے قانونی جنگ لڑتا ہے جب کسی مظلوم کو انصاف مل جاتا ہے تو وہ اور اُس کے لواحقین کے جذبات کی کیفیت تحریر میں لانا ممکن نہیں۔ حُسنِ اتفاق ہے کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے بھی یہ کہہ کر کہ جس معاشرے میں مثالی انصاف نہ ہو وہ پیچھے رہ جاتے ہیں ، وکلاء برادری کو ایک ایسی راہ دکھائی ہے جس پر چلنے کی آج ہمیشہ سے زیادہ ضرورت ہے۔