عوام الناس حکمرانوں اور سیاستدانوں سے کسی بھی وقت جو توقعات وابستہ کرتے ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ان توقعات پر ایسا پانی پھرتا ہے کہ مایوسی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ہر الیکشن کے بعد نومنتخب حکومت اپنے انتخابی منشور کو دھراتی ہے لیکن عمل نہیں کرتی اور آہستہ آہستہ اقربا پروری، مالی خیانت اور لاقانونیت کے دروازے کھلنا شروع ہوتے ہیں۔ لوگ محسوس کرتے ہیں۔ بے چینی بڑھتی ہے اور کچھ حالات عملی مخالفت کے پیدا ہوتے ہیں۔ شور اٹھتا ہے۔ مخالفت سیاسی جماعتیں احتجاج پر اترتی ہیں اور نئی تبدیلی کی ہوائیں چلتی ہیں۔ بسا اوقات تبدیلی نہیں آتی۔ حکمران اپنی سیاسی چالوں سے کرسی کو کمزور نہیں ہونے دیتے اور اپنی مدت پوری کرتے ہوئے اپنے ذاتی منشور و مفادات کی مکمل تکمیل کر کے رخصت ہو جاتے ہیں اور عوام انتخابات میں اپنا غصہ اتارتے ہیں اور نئے لوگوں کو نئی توقعات سے منتخب کر لیتے ہیں اور حسب روایت ان کیساتھ وہی پرانا حادثہ پیش آ جاتا ہے۔ موجودہ حالات میں عوام الناس پر جو شدید ترین معاشی حملے ہوئے ہیں ان میں بجلی پٹرول، گیس کے علاوہ خاموش ترین ریاستی ٹیکس بھی شامل ہیں اور اس بنیادی حملہ آوری کے باعث عوام شدید ترین مصائب اور مشکلات کا شکار ہوتے ہیں اور ان کا احساس و شعور بیدار ہوا۔ حالات سے نجات پانے کیلئے انہوں نے اپنے وکیل کو تلاش کیا۔ طاہرالقادری نے اپنی علمی شخصیت اور سحر انگیز خطابت کے علاوہ اپنے پیروکاروں کی منظم تعداد و قوت کا سہارا لیتے ہوئے اپنی جاذب شخصیت کو عوام الناس کے سامنے بطور وکیل پیش کیا اور ایک مستقل انقلاب کو نوید دی۔ بچے بوڑھے، مرد، خواتین سب ہی اپنا سب کچھ اس انقلابی جدوجہد پر نثار کرنے کیلئے زبانی اور عملی طور پر آمادہ نظر آتے تھے۔ اور حیران کن بات یہ تھی کہ وہ روزانہ اپنی شعلہ بار تقاریر میں قانونی حقائق اور حقوق کی تفصیل بیان کرتے، عوام الناس سے زندگی کی آخری بازی کھیلنے کی پردرد اپیل کرتے تھے۔ جس بنیاد پر پورے ملک میں نئی فکری ہنگامہ خیزی نے جنم لیا۔
طوفان تھا اور عوام الناس بھڑکتے ہوئے حالات میں اپنے کیلئے سہولت اور خوشحالی کے سندیسے سننے کے منتظر تھے لیکن حالات نے یہ ثابت کر دیا کہ عوام کا ووٹ اور دل لینے والے دونوں جادوگر ثابت ہوئے۔ دوسری جانب ڈاکٹر صاحب نے بھی اپنی ساحرانہ روایت برقرار رکھی اور عوام کا دل لیکر کھیل کھیل میں مسل کر رکھ دیا۔ طویل دھرنے کے بعد طوفان کو زیر و زبر سے آشنا کرنے کے بعد کنٹینر چھوڑ کر ادھر ادھر ہونے کی مشق ترک شروع کر دی۔ عوام الناس سمجھے کہ اب انقلاب کیلئے راہ جدید تلاش کر رہے ہیں لیکن ایسا بالکل نہ ہوا۔ انہوں نے یکدم اعلان کر دیا کہ دھرنا ختم کر رہے ہیں۔ خون کا بدلہ، ظلم کا بدلہ، عزتوں کا بدلہ اور نجانے کون کون سے بدلے تھے جن کا اعلان وہ روزانہ کے خطاب لاجواب میں فرمایا کرتے تھے۔ سارے ہی بدل گئے۔ کیونکہ ڈاکٹر صاحب ایک دن کیلئے اپنے گھر ماڈل ٹائون میں آئے تھے اور پرانے دوستوں سے جب آنکھیں چار ہوئیں تو انہوں نے عوام سے آنکھیں بدل لیں۔ اب دھرنا کمپنی عوام الناس سے ہاتھ ہو گیا کیونکہ طاہرالقادری ان سے ہاتھ چھڑا کر کینیڈا روانہ ہو گئے ہیں۔ طاہرالقادری تو اپنی سی کر کے دوکان بڑھا کر چلے گئے لیکن فطرت کا سفر تو بہت ہی خاموشی سے جاری ہے۔ مظلوم کی وکالت تو آسمان سے اترتی ہے۔ نمرود کو ٹھکانے لگانے کیلئے تو ایک چھوٹا سا مچھر ہی کافی ہے۔ فرعون کے گھر پلنے والے موسیٰ تو ہمیشہ ہی صفحہ فطرت پر موجود رہتے ہیں۔ زمین پر برپا ہونے والے انقلابات کا راستہ بدل سکتا ہے لیکن آسمان سے اترنے والی خدائی عذاب کی بلائوں کو کون روک سکتا ہے۔ زمین پر گرنے والے مظلوموں کے خون کی قیمت اگر کوئی سیاستدان خریدوفروخت کی منڈی میں طے کر لے تو کیا ہوا۔ نیتوں کے خون کی دیت نہیں ہوا کرتی۔ طاہرالقادری اور حکومت نے بیس خونوں کو اگر روپے میں تول لیا ہے تو کوئی بات نہیں۔ پاک نیتوں اور بلند ارادوں کو لالچ کی اور جبر کی بھینٹ چڑھانے والوں کو اسی دنیا میں عبرتناک حالات دیکھنا پڑیں گے۔ نواز شریف اگر احمدی نژاد کا انداز خدمت اپنا لیں تو ایک تاریخ رقم ہو جائیگی۔ عوام الناس شکستہ دلی کے پرخوف ماحول میں عمران خان کو دیکھ رہے ہیں تو وہ عمران خان کو مصلحت سے پاک لیڈر تصور کرتے ہیں۔ عمران خان جنوں کو رہنما کئے ہوئے ہیں۔ ان کی استقامت میں مجاہد کی اذان سنائی دیتی ہے۔
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
عمران خان حکایت جنوں رقم کر رہے ہیں لیکن عمران خان راہ جنوں پر چلتے ہوئے اپنے دامن کو مکار، مفاد پرست اور خائن لوگوں سے ضرور بچا کر رکھیں۔ ان سازش کاروں سے بھی اپنے دامن کو بچا کر رکھیں جو برطانیہ میں بیٹھے ہوئے خانہ ساز دین کی پرورش کیلئے ہر سادہ لوح مسلمان کے ساتھ اپنا ایک خاموش پیغام بر لگا دیتے ہیں اور یہ خفیہ پیغامبر ہر کار خیر کو انتشار کی بھٹی میں جھونک دیتا ہے۔ یہ پیغام پر ایوان مشرف سے لے کر میدان عمران تک میں موجود ہیں۔ جاگتے رہئے اور راہ جنوں پر ہمت مردانہ کے ساتھ گامزن رہئے۔ آسمانی نصرتیں آپکو عوام کیلئے راحت رساں بنا دیں گی۔
ایرانی صدر کا دورہ، واشنگٹن کے لیے دو ٹوک پیغام؟
Apr 24, 2024