عوام یا تو پاگل ہو جائیگی یا پھر پاگل کر دیگی… ڈاکٹر طاہرالقادری کہتے ہیں کہ موجودہ پارلیمنٹ جمہوریت کا قبرستان ہے۔ الطاف حسین کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم عوام کے حقوق کی پاسدار ہے۔ شہبازشریف اب روزانہ کہتے ہیں کہ لندن پلان کے کرداروں نے عوام پر ظلم کیا۔ چودھری شجاعت کے مطابق یہ کتنا بدترین ظلم اور ناانصافی ہے کہ نوازشریف نے 143 کرپشن کیس ختم کرا لئے۔ نوازشریف کی ہر تقریر میں اب یہ جملہ ہوتا ہے کہ عمران‘ طاہرالقادری کی وجہ سے چینی صدر کا دورہ منسوخ ہوا اور سرمایہ کاری کا موقع ضائع ہوا۔ عمران خان کا مؤقف ہے کہ شریف خاندان نے لوٹ مار کیلئے ملک دائو پر لگا دیا ہے اور بینکوں کا 380 کروڑ قرضہ واپس نہیں کیا۔ میاں برادران کی ہوس نے عوام کو مقروض اور مفلوک الحال بنا دیا ہے۔‘‘ قومی لیڈروں میں سے چیدہ چیدہ کے خیالات سے محسوس ہوتا ہے کہ سب پاکستان اور پاکستانیوں کے ہمدرد ہیں۔ سبھی کے پیٹ میں عوام کے درد کی مروڑ اُٹھتی ہے۔ سبھی انصاف اور حق کے پرستار ہیں۔ نیز یہ کہ سبھی ایک دوسرے پر ایسے الزامات لگاتے ہیں جیسے خود پارسا‘ نیکوکار اور پرہیزگار ہیں جبکہ دوسرے خطائوں کے پتلے ہیں۔ پاکستان کی دیہی آبادی 70 فیصد ہے۔ یہاں کے لوگوں میں سیاسی بالیدگی کا فقدان ہے۔ یہ لوگ جس طرف ایک بار چل پڑیں … پھر اُسی طرف ہی چلتے ہیں۔ انکے زمیندار‘ وڈیرے‘ جاگیردار آقا کا جو حکم یا مرضی ہو‘ یہ لوگ بلا چوں و چراں اُدھر ہی اپنا ووٹ ڈالتے ہیں۔ ان لوگوں میں ازخود اتنا شعور نہیں ہوتا بلکہ پاکستان میں اکثریت ایسے ووٹروں کی ہے جو یہ نہیں دیکھتے کہ فلاں حکمران نے کتنی کرپشن کی ہے‘ کتنے فنڈز کھائے ہیں اور کتنے قرضے انکے بینکوں کی نذر ہوئے ہیں۔ وہ تو صرف انکی تقریروں‘ بیانات اور اعلانات کو ہی سچ مان لیتے ہیں۔ انکے جعلی اور جھوٹے وعدوں پر ووٹ انہیں دے آتے ہیں۔ آپ غور فرمایئے کہ سوا سالہ موجودہ حکومت کی کیا پرفارمنس ہے۔ حکومت نے ہیوی مینڈیٹ اور ہیوی فنڈز اور ہیوی قرضوں کے بعد کتنے ڈیم بنائے کتنی سڑکیں بنائیں‘ کتنے پُل تعمیر کئے‘ کتنی فیکٹریاں لگائیں اور کتنے سکول‘ ہسپتال تعمیر کئے۔ کتنی بیروزگاری ختم کی اور کتنی مہنگائی روکی۔ کتنا لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا اور کتنا امنِ عامہ قائم کیا؟ اس سے پہلے والی حکومت کی کارکردگی ملاحظہ فرما لیں‘ جن کے دونوں وزارء کا زیادہ وقت ’’دفاع‘‘ اور عدالتوں کے نوٹس بھُگتانے میں گزرا۔ زیادہ تر یوسف رضا گیلانی اور پرویز اشرف عدالتوں میں پیش ہوتے رہے۔ حکومت کیلئے تمام سیاسی جماعتیں یکے بعد دیگرے برداران ِ یوسف ثابت ہو رہی ہیں۔ الطاف حسین نے عمران خان کو کراچی میں کھلے دل اور جوش و جذبے سے خوش آمدید کہہ کر حکومت کے پائوں اکھاڑ دیئے ہیں۔ پیپلزپارٹی بھی ڈبل گیم کر رہی ہے۔ اگر عمران خان کل کو وزیراعظم بن گئے تو آپ دیکھیں گے کہ فضل الرحمن جوتوں سمیت بلکہ اپنے عملہ کے ساتھ عمران خان کے پیٹ میں گھسنے کی کوشش کریں گے بلکہ عمران خان کو جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا قومی ہیرو قرار دینگے۔ اے این پی کا سیاسی دین ایمان جھولتا رہتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین سیاست سے زیادہ ’’اقتدار‘‘ کے عاشق ہیں۔ یہ لوگ عوام کی خدمت کے بجائے ’’ذاتی خدمت‘ کے پرستار ہیں۔ جب ’’ہوس‘‘ دل و دماغ پر سوار ہو جائے تو ہر ’’جائز‘ ‘ناجائز لگنے لگتا ہے اور ہر ’’ناجائز‘‘ فعل جائزنظر آنے لگتا ہے۔ جب بھی کوئی حکومت قائم ہوتی ہے‘ اس کا موٹو یہی ہوتا ہے کہ امریکہ سے آشیرباد لی جائے‘ اسکے ہر ایجنڈے کی تکمیل خوشدلی اورچابکدستی سے کرکے ان کا قرب حاصل کیا جائے تاکہ دورانِ اقتدار کم از کم نصف درجن دورے کرکے امریکی صدر کے ساتھ ہونے والے مشن کو اپنی یادوں اورالبموں میں محفوظ کیا جا سکے۔ زیادہ تر صاحبِ اقتدار کو ذہانت اور علم سے بیر رہا ہے۔ کوئی بات خود سے نہیں سوچتے۔ سوچنے سمجھنے کا تمام بوجھ نااہل وزیروں اور نالائق مشیروں پر ڈالا ہوتا ہے۔ اگر ہمارے حکمرانوں میں سوچ بچار کا مادہ ہوتا‘ اُنکے پاس علم کی طاقت ہوتی اور وہ وجدان کی دولت سے مالامال ہوتے تو سب کا دور اقتدار طویل دورانیے کا نہ ہوتا۔ اُنکی حکومتیں ایک یا دو سال بعد نہ گرتیں۔ اُنہیں ادراک ہوتا کہ اُنکی ڈور کون ہلا رہا ہے اور پائوں کے نیچے سے کون زمین کھینچ رہا ہے۔ پاکستان کو ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ قیادت کی ضرورت ہے۔ ایک زیرک اور ذہین لیڈر ہی پاکستان کا مقدر بدل سکتا ہے۔ ایک ایسا ملک جو قدرتی نعمتوں سے مالامال ہے‘ جہاں کے لوگ محبتوں سے لبریز اور ذہانتوں سے معمور ہیں‘ لیکن ناعاقبت حکمرانوں نے ہمیشہ اپنی قوم اور انکی ترقی کو زنگ آلود رکھا ہے۔ پاکستانی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں رہی ہے جو صرف خودی کے پرستار رہے۔ خود اور خود کے خاندان رشتہ دار‘ دوست احباب‘ خوشامدیوں کی خوشحالی جن کا مطمعٔ نظر رہی ہے۔ جنہیں کبھی دولت اکٹھی کرنے کے علاوہ دوسری بات نہیں سوجھتی۔ جنہیں دوست اور دشمن کی کبھی پہچان نہیں رہی… چند سالوں میں مگر پاکستان میں تبدیلی آئی ہے جس نے پاکستانیوں میں شعور اور ادراک پیدا کیا ہے‘ تاہم وسائل کی کمی اور کرپشن کی وجہ سے ملک میں بے چینی اور انتشار بڑھ گیا ہے۔ امریکہ اور بھارت کا تو مشن ہے کہ وہ پاکستان کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیں۔ پاکستان میں انارکی‘ بغاوت اور دہشت گردی کی آگ بھڑکے۔ عمران خان کے کراچی کے شاندار جلسہ کے بعد عوام میں ایک نئی سرشاری نے آنکھ کھولی ہے۔ پاکستان کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی تبدیلی اورآگہی کی ضرورت ہے جس میں کسی کا حق نہ مارا جائے۔ کسی کے حقوق سلب نہ ہوں۔
ایرانی صدر کا دورہ، واشنگٹن کے لیے دو ٹوک پیغام؟
Apr 24, 2024