جنگ آزادی کے ہیرو رائے احمد خان کھرل شہید کی برسی
1857ءکی جنگ آزادی تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑ گئی ہے لیکن رائے احمد خان کھرل شہید کا غیرت مند کردار تاریخ میں ایک علامت کے طور پر ابھرا ہے۔ نامساعد حالات اور قلیل ترین وسائل ہونے کے باوجود انہوں نے انگریز سامراج کی پالیسیوں سے 81 سال کی عمر میں بغاوت کی۔ 1776ءکو جھامرہ ضلع فیصل آباد میں رائے نتھو خاں کے گھر پیدا ہونیوالے رائے احمد خاں نے انگریزی سامراج کی پالیسیوں کو للکارا اور ماننے سے انکار کر دیا اور دوسرے فتیانہ اور وینیوال قبیلوں کو اپنے ساتھ شامل کر لیا اور انہوں نے بھی بھرپور ساتھ دیا۔ رائے احمد خان کو قابو کرنے کیلئے انگریز نے گوگیرہ بنگلہ کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنا لیا۔ انگریزی فوجوں نے مجاہدین کی پکڑ دھکڑ شروع کر دی اور گوگیرہ بنگلہ کی جیل میں بند کرنا شروع کر دیا۔ کچھ مجاہدوں کو دہشت پھیلانے کیلئے پھانسی بھی لگا دیا۔ ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ نواب بہاولپور نے اسلحہ کی صورت میں مجاہدوں کی مدد کی تھی۔ جن قبیلوں نے انگریز کا ساتھ دیا ان کو انعامات ‘ القابات اور جاگیروں سے نوازا گیا۔ مئی جون‘ جولائی کے مہینوں میںگھمسان کی جنگ جاری رہی۔ گوگیرہ بنگلہ میں مجاہدین کو قید میں رکھا گیا۔ 26 جولائی 1857ءکو رائے احمد خان نے اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کے ساتھ جیل پر حملہ کر کے قیدیوں کو چھڑا لیا۔ جس میں رائے احمد خان کھرل بھی زخمی ہوا۔ 16 ستمبر کو کمالیہ میں تمام زمینداروں کا ایک اجلاس ہوا اگر اجلاس میں آنیوالے سرداروں نے رائے احمد خان کا ساتھ دینے کا وعدہ تو کیا لیکن ان میں سے کسی نے اس اجلاس کی مخبری انگریز کو بھی کر دی۔ 17 ستمبر کو اسسٹنٹ کمشنر برکلے کی انگریزی فوجوں نے جھامرے پر چڑھائی بھی کر دی لیکن رائے احمد خان کھرل گرفتار نہ ہو سکا۔ لیکن گاﺅں کے بچوں اور عورتوں کو گرفتار کر کے گوگیرہ جیل میں بند کر دیا۔ اور تمام مال مویشی کو قبضہ میں لے لیا۔ گوگیرہ‘ چیچہ وطنی‘ ہڑپہ‘ ساہیوال میدان جنگ کی شکل اختیار کر گئے۔ 21 ستمبر 1857ءکو ایک بڑا معرکہ ہوا۔ انگریز فوج کے پاس جدید اسلحہ تھا۔ اس معرکہ میں رائے احمد خان شہید ہو گئے وہ اس وقت عصر کی نماز ادا کر رہے تھے۔ انکے ساتھ سردار سانگ بھی شہید ہو گئے۔ 22 ستمبر کو برکلے کا آمنا سامنا دریائے راوی کے کنارے پر مجاہدین کے ساتھ ہو گیا۔ جس میں مراد فتیانہ اور سوجا بھدرو کے ہاتھوں برکلے مارا گیا۔ گورا فوج نے ان کو پکڑ کر کالے پانی بھجوا دیا۔ ڈاکٹر رائے نیاز احمد خان کھرل‘ وائس چانسلر پیر مہر علی ایگری کلچرل یونیورسٹی راولپنڈی نے رائے احمد خان کی شہادت کے بعد اس علاقہ کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا گیا وہ اس طرح بیان کرتے ہیں۔ انگریزی سرکار سے وفاداری کے صلے میں ”بالائی طبقہ“ میں شامل ہونیوالے کالے انگریزگورے انگریزوں سے بھی زیادہ ظالم ثابت ہوئے۔ جن قبائل نے تحریک آزادی میں قربانیاں دیں انہیں تعلیم سے محروم رکھا گیا۔ میں حیران ہوں کہ ہمارے علاقے کے لوگوں نے تعلیم کیسے حاصل کی۔ افسوس کہ 1857ءکی جنگ آزادی میں انگریزوں کی بربریت کا نشانہ بننے والی اور گذشتہ 150 سال تک ظلم کی چکی میں پسنے والی اس علاقے کی برادریوں کی کوئی تاریخ مرتب نہیں کی گئی۔ بہت سے لوگ انگریز کے مظالم سے بچنے کیلئے کھرل سے ”کھر“ اور ”ہرل“ کہلانے لگے۔ ان علاقوں کی سرحدوں پر آباد کھرل اوردوسرے قبائل کی زمینیں چھین کر انگریزوں کے مخبروں کو الاٹ کر دی گئیں۔