ماں ۔۔۔مقدس رشتہ ۔۔۔اسپتالوں کی بے حسی
ماں ایک ایسا مقدس رشتہ ہے جوا زل سے ہے اور ابد تک رہیگا۔ 7اکتوبر 2017کو میری والدہ ماجدہ جہان فانی سے کوچ کرگئیں ہماری دعائوں کا دروزہ بند ہوگیا۔میری والدہ نے کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا انکی نماز جنازہ اور سوئم میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ان سے محبت کرنے والوں کا ایک بہت بڑا حلقہ تھا۔ میں نے بچپن اور آج جب عمر کا وہ حصہ آگیا ہے کہ سفیدی بالوں کو چھو رہی ہے ان کو محبت اور شفقت میں پایا ۔انکی دعائوں کا خزانہ ہم سب بہن بھائیوں کے لئے تھا ۔ میرے والد بھی بہت شفیق انسان تھے انہوں نے بھی کسی کی دل آزاری نہیں کی وہ 1996میں ہمیں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ میرے دو بڑے بھائی احسان خان (پاکستان ایئرفورس)، عرفان خان ( اسٹیٹ بنک)،چھوٹا بھائی فرحان خان (لوکل گورنمنٹ ) میں ملازم ہیں جنہیں مجھ سمیت اچھی تربیت اور ماں باپ کی توجہ کی وجہ سے نکھرنے کا موقع ملا‘ متوسط طبقے کے گھرانے سے اچھی تربیت کی وجہ سے افسران بنے ۔ ہر مشکل وقت میں ہماری والدہ کو پہلے سے پتہ چل جاتا تھا انکی دعائیں ہر اذیت اور مشکل سے نکال لاتی تھیں۔ دکھ یہ ہے کہ چیسٹ انفیکشن کی شکار ہونے والی میری والدہ جمشیدی بیگم کو سانس لینے میں رکاوٹ پر جب معروف نجی سپتال لیکر پہنچے تو انکے اصل ٹریٹمنٹ کے بجائے انہیں وینٹی لیٹر پر ڈال دیا گیا اور ہمیں طرح طرح سے اذیت دیکر کبھی بھی گردوں کی شکایت نہ ہونے والی ماں کا 75سال کی عمر میں ڈایالسس کردیاگیا۔ اللہ کی رحمت سے وہ یہ پہلا ڈایالسس برداشت کرگئیںتو ہمیں کہا گیا کہ رزلٹ نہیں آیا دوبارہ ڈایالسس ہوگا۔ ہم نے کہا کہ انہیں اتنی اذیت اور تکلیف نہ دیں کوئی اور ٹریٹمنٹ کریں جس سے یہ ریکور ہوجائیں لیکن دوسرا ڈایالسس کرکے انہیںموت کی نیند سلادیا گیا۔ یہ ساری فنکاریاں رقم بٹورنے کے لئے کی گئیں کیونکہ والدہ اسٹیٹ بنک کے پینل پر تھیں۔ اسپتال انتظامیہ کا رویہ انتہائی جارحانہ رہا جس سے انسانیت کی بے حسی واضح ہوئی ۔ وہ فٹ تھیں خود چلتی پھرتی تھیںمجھے وہ منظرنہیں بھولتا کہ میں جب انکے پاس جاتا تو وہ سارے کام چھوڑ کر مجھے گلے لگا لیتیں۔ انکی دعائیں انکی فکر سب سے ہم محروم ہوگئے۔ انکی ساری زندگی ہماری خدمت ہمیں بنانے سنوارنے اور ہماری تکلیفوں کے خاتمے کی دعائوں پر گزری۔ وہ انتہائی خود دار تھیں کسی کی کوئی مدد نہیں لیتی تھیں ۔ والد کی پنشن اور گھر کے کرائے سے گزر اوقات کرتی تھیں اس میں بھی تمام لوازمات لینا دینا سب کرتی تھیں۔ ہم میں سے کوئی بھی کوشش کرتا کہ انکے لئے کچھ کردے تو منع کردیتیں ۔ تصویر تک نہیں کھنچاتی تھیں والدہ کا تعلق مذہبی گھرانے سے تھا نانا خورشید علی خان جید عالم اور پیر تھے لیکن گھر والوں پر کبھی آشکار نہیں کیا۔ اسی طرح میرے دادا محمود خان بھی پیش امام تھے۔ میرے والد کی جا نب سے چند ہی رشتہ دار تھے جو قیام پاکستان کے وقت زندہ بچے ۔ والدہ بتاتی تھیں کہ تمام رشتہ دار بلوائیوں سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے جبکہ پھوپیوں کو کنویں میں پھینک دیا گیا تھا اور قتل و غارت گری میں والد کا خاندان شہید ہوگیا۔ والد اور تایا دہلی میں ملازمت کی وجہ سے بچ گئے 7اکتوبر کو جب والدہ کی تدفین کی تو انکے پہلومیں والد محترم عبدالرفیق خان اور تایا عبدالحمید خان ہیں ۔ اچھی تربیت خاندان میں نام کراتی ہے میری چار بہنیں انکی تربیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم بہن بھائی اپنے والدین کی تربیت کی وجہ سے نہ لالچی ہیں نہ مفاد پرستی کا شکار ہیں ۔ والدہ کو اسپتال میں ملنے والی اذیت اوربے حسی کا دکھ ساری عمر رہیگا۔ والد بھی خود دار تھے اپنی وفات سے پہلے تک خود چل کر واش روم گئے۔ ساری عمر ہم سب کے لئے اسٹیٹ بنک میں خدمت اوراوور ٹائم کرکے ہماری ضروریات پوری کرتے رہے علاج تک نہیں کراتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جب گھر کو ٹائم دیا تو پتہ چلا کہ انہیں معدے کا کینسر ہوچکا ہے انکی کیمو تھراپی شروع ہوگئی۔ ہمیں ڈاکٹرزنے انکی چار ماہ مدت بتائی لیکن ہم نے آخری وقت تک انہیں کینسرکا پتہ نہیں چلنے دیا۔تایا اور والد نے نیا گھر بنایا لیکن جتنی چاہ سے گھر بنوایا تایا شفٹنگ سے پہلے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ہم بہن بھائیوں نے تین رشتے دیکھے تایا کو ہم ابا کہتے تھے لیکن ان رشتوں میں محبت اور مٹھاس دیکھی اور ان محروم رشتوں کی تشنگی ہمیشہ رہے گی۔ والدہ ماجدہ کی کمی تو کوئی بھی پوراا نہیں کرسکتا۔ عظیم ہیں وہ ماں باپ جنہیں انکی اولادیں یاد کرتی ہیں اور خوش نصیب ہیں وہ بچے جنہیں عظیم والدین ملتے ہیں۔ تشنگی ہے کہ والدہ سے آخری وقت میں گفتگو نہیں ہوسکی۔ میرے تین بھائی بہت خوش نصیب ہیں جو ان سے ملتے رہتے تھے۔ میں دور ہونے کی وجہ سے ملاقات نہیں کرپاتا تھا لیکن انکی نظروں اور دعائوں سے کبھی دور نہیں تھا اب ہر لمحے چھتری نہ ہونے کا احساس ہے۔ میری والدہ کے لئے سوئم تک ماشائاللہ800قران مجید لاکھوں کلمے درود شریف اور دیگر آیات ایصال ثواب ہو چکی ہیں یہ سلسلہ جاری ہے ۔ والدہ کے پوتے پوتیاں ، نواسے نواسیاں اور اولاد سب ان کے لئے دعا گو ہیں ۔ میں ان سب کا احسان مند ہوں جو والدہ کے انتقال پر شریک غم ہوئے ۔ میری والدہ کے غم میں سیاسی و سماجی شخصیات و عزیز واقارب کے علاوہ رشتہ دار ، اہل محلہ اورعلاقے کے افراد نے بھرپور شرکت کی میں ان تمام بہی خواہوں سے شرکت پر اظہار تشکرکرتا ہوں ۔ہماری والدہ کی دعائیں ہماری ڈھال تھیں ۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔