قطری خطوط کی شہرت اب ملک گیر نہیں رہی۔ قطری خطوط نے شہرت میں عالمی سرحدیں بھی عبور کر لی ہیں۔ قطری شہزادے کو یہ نسخہ کیمیا دیر سے سوجھا بلکہ ایک عرب شہزادے کی اتنی فہم و بصیرت کہاں کہ وہ اتنی دور کی کوڑی لائے۔ خط لکھنا اور اسکا متن بنانا تو درپردہ پرویز رشید کا کمال ہو گا مگر شہرت قطری شہزادے کے حصے میں آئی ہے۔ اب جہاں قوم کے نونہال بچے درسگاہوں میں میاں نواز شریف کی سوانح عمری پڑھیں گے اور وزیراعظم بننے کے گر سیکھیں گے وہاں قطری خطوط کو بھی جلد نصاب کا حصہ بنا دیا جائے گا۔ قطری خطوط نے جو بین الاقوامی مقبولیت کے ریکارڈ توڑے ہیں۔ اس سے مرزا غالب کی روح کافی بے چین ہے مزار اقبال سے بھی کچھ صدائیں آرہی ہیں۔ خطوط غالب‘ خطوط اقبال کے بعد ”قطری خطوط“ کو شامل نصاب کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔ خطوط غالب میں تو محض مزاح‘ قرضے اور قصے ہیں جبکہ خطوط اقبال میں نری حکمت عملی اور فلسفے کی باتیں ہیں۔ آج کی پاکستانی قوم مزاح نگاری‘ قصہ خوانی اور ادھار مرض سے عاجز اور بیزار ہے۔ یہ قوم مزاح سے اس لئے عاری ہے کہ بقول غالب مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پہ کہ آساں ہو گئیں۔ مہنگائی‘ کرپشن اور ٹیکسوں کی مارکھائی ہوئی قوم کیا حس مزاح رکھے گی۔ جب سے چینلز پر ٹاک شوز اور بریکنگ نیوز کا خوفناک ٹرینڈ چلا ہے۔ اس کے بعد داستان ناول قصہ افسانہ سب خواب ہو گئے ہیں۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف سے حکومت پاکستان نے جتنا ادھار اور قرض لیا ہے اس کے بعد غالب مرحوم کے وہ چند روپوں کے قرضے بہت حقیر لگنے لگے ہیں۔ رہ گئی اقبال کی حکمت‘ دانش اور فلاسفی .... تو ہماری قوم جس مالی اور اخلاقی کرپشن میں ملوث کر دی گئی ہے۔ جن مادی خرابیوں‘ انحطاط اور زوال کو پاکستانیوں میں ضم کیا گیا ہے اور جن فرقہ وارانہ‘ سیاسی گروہ بندیوں اور دہشت گردانہ حالات سے نبرد آزما کیا گیا ہے۔ اس کے بعد حکمت‘ دانش‘ ادب‘ فلسفہ اور تہذیب کا سوال ہی باقی نہیں رہ جاتا۔ امید ہے کہ ہماری حکومت بہت جلد خطوط غالب اور مکاتب اقبال کو متروکہ قرار دیکر قطری خطوط کو نصاب میں شامل کرے گی۔ جن خطوط پر ایچ ای سی‘ یونیورسٹیاں اور کالج سکولز چل رہے ہیں۔ ان کی مناسب اور مطابقت قطری خطوط سے زیادہ ہم آہنگ ہے۔ مجھے قوی یقین ہے کہ ٹھیک پانچ سال بعد میاں نواز شریف کی سوانح عمری اور قطری خطوط کے بعد ملک کا بچہ بچہ اپنی ذات میں وزیراعظم ہو گا۔ ہم وزیراعظم کے معاملے میں ناصرف خود کفیل ہوں گے بلکہ ہم اپنے وزیراعظم ایکسپورٹ بھی کر سکیں گے۔ پاکستانی نژاد وزیراعظم کی ڈیمانڈ سب سے زیادہ عرب ممالک میں ہو گی۔ اسکے بعد پاکستان میں کوئی امپورٹڈ پرائم منسٹر نہیں آئے گا جیساکہ پہلے معین قریشی‘ شوکت عزیز ٹائپ امپورٹڈ وزیراعظم منگائے گئے تھے۔ اگر ن لیگ نے 2018ءکا الیکشن جیت لیا جس کی دو سو فیصد امید ہے تو آپ یقین رکھئے کہ پاکستان مکمل طورپر تبدیل ہو جائے گا۔ عمران خان نے تو صرف تبدیلی کا نعرہ لگایا ہے مگر میاں برادران نے تبدیلی کر دکھا دی ہے۔ عمران خان تو دھرنے دے دے کربالکل بوڑھے ہو گئے ہیں۔ انکا بڑا بیٹا ابھی صرف انیس سال کا ہے لیکن میاں نواز شریف کی نواسی مہر النساءاب خیر سے پچیس سال کی ہے اور خود مریم نواز شریف نانی بننے والی ہیں مگر میاں نواز شریف بالکل نوجوان دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی عمر پچیس سے زیادہ کی نہیں لگتی جبکہ اس سال انکی شادی کو پچپن سال ہونگے۔ عمران خان جب مسکرا کر یہ کہتے ہیں کہ ذرا شکل دیکھیں وزیراعظم کی.... اتنی معصوم صورت بنا کر بیٹھ جاتے ہیں۔“ اس میں شک نہیں کہ میاں نواز شریف کا چہرہ معصوم بھی ہے اور نورانی بھی.... وہ جتنے بھی چالاک سہی لیکن کہیں معصومیت بھی ہے میاں نواز شریف کے باطن میں .... اس بات کے اعتراف میں بخل نہیں کرنا چاہئے سو تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو‘ میاں نواز شریف جیسے معصوم‘ سادہ لوح آدمی کی سوانح حیات میں کیا ہو گا۔ نہ میاں نواز شریف شرارتی تھے نہ جینئس‘ نہ ادبی تھے نہ سوشل تھے نہ رومانٹک تھے نہ کوئی سکینڈل نہ کوئی جنگ‘ بس آسانی سے وزیر خزانہ بنے‘ وزیراعلیٰ اور وزیراعظم‘ پوری زندگی میں ایک شادی ہے۔ اب بھلا سوانح حیات میں کیا نکلے گا۔ پانامہ کیس شامل ہوتا تو سوانح حیات دلچسپ ہوتی لیکن پانامہ کیس تو عدالتوں میں بھی نہیں چل رہا۔ سوانح حیات میں کیسے چلتا۔ 2018ءتک اس کیس کو کھینچا جائے گا اور کوئی نہ کوئی نئی کہانی ڈال کر انڈین ڈرامے ”ساس بھی کبھی بہو تھی“ کی طرح لمبا چلایا جائیگا۔ ویسے تو چیف جسٹس صاحب نے فرمایا ہے کہ ایماندار‘ غیر جانبدار عدلیہ معاشرے کی ضرورت ہے۔“ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری بھی کہا کرتے تھے کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہئے۔ پھر قوم نے اپنی گناہگار آنکھوں سے سب تماشے دیکھے۔ یہ بھی دیکھا کہ ارسلان افتخار کی کرپشن کو کیسے دبایا گیا۔ اب خطوط لکھنے کے بجائے بیان دینے کا زیادہ رواج پڑ گیا ہے مثلاً میاں نواز شریف کے بیانات پڑھ کر خوشگوار صدمہ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ مخالفین ترقی میں مقابلہ کریں۔ ہم نیا پاکستان بنا رہے ہیں۔ ملک خوشحال ہو رہا ہے۔“ جناب میاں نواز شریف صاحب.... آپکے مخالفین ترقی میں تو آپکا مقابلہ کر ہی رہے ہیں لیکن آپکی ترقی میں وہ آپکے مرکر بھی ہم پلہ نہیں ہو سکتے کیونکہ اپنی ترقی میں تو آپ نے ایرانی شہنشاہوں‘ سعودی فرمانرا¶ں‘ فلپائن کے سابق صدر مارکوس‘ مصری جلاوطنی صدر مارکوس‘ ترکی کے طیب اردگان اور لیبیا کے کرنل معمر قذافی سمیت قارون کے خزانے کو بھی مات دیدی ہے۔ میاں نواز شریف کے دوسرے بیان کا حصہ ہے کہ ہم نیا پاکستان بنا رہے ہیں۔ میاں صاحب‘ آپ اسے پرانا پاکستان ہی رہنے دیں تو اچھا ہے۔ نئے پاکستان میں تو محبت‘ انسیت‘ اخلاق‘ ایمانداری شرافت اور لحاظ شرم ہی ختم ہو گئی ہے۔ صرف کرپشن کا بول بالا ہے۔ میاں صاحب اگر آپ پانامہ اور قطری خطوط سے باہر نکل آئیں تو آپکے اندر کا وہ معصوم انسان نکل آئیگا جب 70ءکی دہائی میں آپ کبھی معصوم ہونگے۔ ایک خط آپ ضمیر کی روشنی میں اپنے مافی الضمیر پر اپنے خدا کے نام لکھئے تو آپ اور پاکستان دونوں کا مقدر بدل جائےگا۔
ایرانی صدر کا دورہ، واشنگٹن کے لیے دو ٹوک پیغام؟
Apr 24, 2024