روم سمجھوتے کے ساٹھ سال
آج ساٹھ سال قبل پچیس مارچ کو ٹریٹی آف روم پر دستخط ہوئے تھے۔ سمجھوتہ روم ‘ یا ٹریٹی روم کے نتیجے میں یورپ میں امن اور استحکام کے ایک طویل دور کا آغاز ہوا ۔1957ءمیں ”ٹریٹی آف روم“کے نتیجے میں یورپ میں علاقائی سطح پر اتحاد اور ایک مشترکہ مارکیٹ کے قیام کے امکانات پیدا ہوئے۔ اس سمجھوتے کے نتیجے میں سرمایہ کی انتہائی آزادانہ نقل و حرکت شروع ہوئی۔ اس سمجھوتے کے نتیجے میں یورپ کے شہریوں کو جو استحکام اور خوشحالی ملنا شروع ہوئی۔ ٹریٹی آف روم یا روم سمجھوتے کے آج ساٹھ سال پورے ہو گئے ہیں۔ یہ موقع اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اب یورپ کے مستقبل پر غور کیا جائے اور دیکھا جائے کہ پچھلے ساٹھ برس میں یورپ کو کیا کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ یورپ کی کہانی امن جمہوریت ‘ استحکام اور آزادی کی کہانی ہے۔ یہ کہانی خوشحالی ‘ مساوات اور لوگوں کی فلاح کی کہانی بھی ہے۔ اس عرصہ میں ناکامیاں بھی ہوئی ہیں۔ کئی چیلنج بھی درپیش ہیں ۔ یہ چیلنج کبھی کبھار بہت بڑے چیلنج محسوس ہوتے ہیں۔ اس لئے اب بات چیت اور سوچ و بچار کی ضرورت ہے۔ تاکہ کامیابیوں کا جائزہ لیا جائے۔ یہ عمل ایک نئے آغاز کی بنیاد بن سکتا ہے۔
ہم سب یورپی ہیں ‘ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یورپ ہمارا مستقبل ہے۔ یہ ہماری امید ہے۔ ہمارے رکن ممالک جانتے ہیں کہ ہمیں مستقبل میں زیادہ پیچیدہ مسائل جن میں موسمیاتی تبدیلیاں‘ دوسرے ملکوں سے آنے والے مہاجرین ‘ بے روزگاری اور عدم استحکام ایسے مسائل کا سامنا ہوگا۔ اس کے علاوہ دہشت گردی اور عدم استحکام بھی ہمارے لئے چیلنج ہوں گے۔ ہمارے خیال میں ہم اپنی قومی خود مختاری کو شیئر کر کے اپنے مشترکہ مفادات کا تحفظ کر سکتے ہیں۔ ہم تعاون کر کے آنے والے مقابلے کے ماحول اپنی قوت سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم جمہوریت کو قائم رکھیں اور اسے فروغ دیں۔ ہم قانون کی بالادستی ‘ صنفی مساوات کو مستحکم کریں۔ ہم مذہب اور عقیدے کی آزادی کو استحکام دیں۔ ہم اقلیتوں کا تحفظ کریں۔ ہمیں ان اصولوں پر فخر ہے۔ ہمارے براعظم پر ان اصولوں پر عملدرآمد میں شدت کم نظر آتی ہے۔ ہماری مشترکہ اقدار ایسی ہیں جن پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ یورپ کا ترقیاتی ماڈل وہ ماڈل ہے جس کے ذریعے ہم دنیا کی دولت کا ایک چوتھائی پیدا کرتے ہیں۔ ہم کاربن کے اخراج کو محدود کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یورپی یونین دنیا کی توجہ گوبل وارمنگ کی طرف دلانے میں کامیاب رہا ہے۔ یورپ اور ان کے کئی خطوں میں ”سبز پرچم“ کا علمبردار ہے۔ ہم اپنی سوشل یا مارکیٹ حیثیت کو بھی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم معاشی ترقی اور سماجی اتحاد کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ دنیا پرامن نہیں ہے۔ یہ عدم استحکام کا شکار ہے۔ ہمارے پڑوس میں یوکرائن اور روس کا تنازعہ چل رہا ہے۔ شام ‘ عراق‘ لیبیا کے مسائل ہیں ‘ ان خارجی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے ہمیں تعاون اور اتحاد کی ضرورت ہے۔ مہاجرین کی آمد کے سلسلے میں بھی ہمیں متحد ہونا پڑے گا۔
ہم کوشش کر رہے ہیں کہ دنیا بھر میں اپنے حلیفوں کے ساتھ تعاون کریں تاکہ مذکورہ مسائل سے نمٹنے کی ان میں صلاحیت پیدا ہو اور وہاں امن اور استحکام کا ماحول پیدا ہو۔ یورپی یونین دنیا میں سب سے بڑا ڈویلپمنٹ پارٹنر ہے۔ اس امر کے باوجود ہم سب یورپی ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے داخلی مسائل ہماری توانائیوں کو ہڑپ کررہے ہیں۔ ہم برطانوی عوام کی طرف سے یورپی یونین کو چھوڑنے کے فیصلے پر اظہار افسوس کرتے ہیں لیکن ان مشکلات سے ہمارے ہاں مثبت تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ یورپی یونین کے ممالک اور یورپی یونین سالیڈریٹی کارپوریشن ہمارے اتحاد کو برقرار رکھنے میں معاونت کر رہے ہیں۔ برسلز میں حال ہی میں ہونے والی سربراہ کانفرنس میں یورپی یونین کے لئے نئے امکانات تلاش کئے گئے ہیں اور مشترکہ اقدامات کے لئے فیصلے کئے گئے ہیں۔ ہم یورپی یونین کے قیام کی ساٹھویں ساگرہ کے موقع پر اپنے ماضی پر فخر کرتے ہیں اور مستقبل پر ایک پرامید نظر ڈالتے ہیں۔