2016کے ابائل میں جب پانامہ لیکس کے انکشافات ہوئے تو اس میں میاں نواز کے بچوں سمیت بیسیوں پاکستانیوں کے نام شامل تھے۔پانامہ لیگ کے انکشافات اگر اس قدر سنگین تھے تو اس میں شامل ہر پاکستانی کا فوری ٹرائل کیا جاتا لیکن عمران خان ‘شیخ رشید اور سراج الحق نے صرف نواز شریف اور ان کی فیملی کے ٹرائل کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔اب سراج الحق کی جانب سے پانامہ انکشافات میں شامل تمام پاکستانیوں کے ٹرائل کے اخباری بیانات سامنے آتے ہیں۔لیکن وہ یکسوئی سامنے نہیں آتی جو نواز شریف کے ٹرائل میں سامنے آئی۔اگر کوئی بھی سیاست دان پانامہ لیکس پر تمام لوگوں کے بلاتفریق ٹرائل کا حامی ہے تو وہ بیان بازی کے بجائے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرے۔پانامہ لیکس انکشافات میں اگر تمام افراد کا ٹرائل نہیں ہوتا تو عوام یہی سمجھنے پر مجبور ہیں کہ یہ صرف نواز شریف کو نا اہل کرنے کیلئے ہی تھا۔پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ میں سے دو ججوں نے اپنا مکمل فیصلہ سنا دیا تھا جبکہ تین ججوں نے JITبنا کر اسے صرف تحقیقات کا مینڈٹ دیا تھا۔JITرپورٹ میں شریف فیملی کے نیب ٹرائل کی تجویز دی۔JIT رپورٹ کے بعد فیصلے میں ایک بار پھر پانچ ججوں نے فیصلہ کیا۔حالانکہ عام شہری یہی سمجھتا تھا کہ یہ فیصلہ تین جج کریں گے یہ معاملہ بھی عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہے۔
فیصلے میں نواز شریف کو نا اہل قرار دیکر سزا پہلے دے دی گئی جبکہ نیب ٹرائل کا آغاز اب ہونے جا رہا ہے ۔پاکستان کی تاریخ میں بڑے نمایاں کارنامے انجام دینے والے حکمرانوں کو امریکہ نے ہمیشہ مختلف طریقوں سے ہٹوایا۔جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کو ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنے اور اسلامی ممالک میں مثالی اتحاد قائم کرنے کی کوششوں کی سزا ملی۔جنرل ضیاء الحق کو امریکہ کی جانب سے افغانستان کے تین ٹکڑے کرنے کی تجویز کو مسترد کرنے کی سزا میں۔تواز شریف کو پہلے ایٹمی دھماکے کرنے اور اب سی پیک (CPEC)کی تعمیر کرنے کی سزا دی گئی۔عام آدمی تو یہی سمجھ رہا تھا کہ نواز شریف نے چین سے دو سو ارب روپے کے (CPEC)معاہدے کرکے مستقبل قریب میں پاکستان کو امریکی ڈکٹیشن سے مکمل طور پر آزاد کر لیا ہے اور اب پاکستان آزادانہ خارجہ پالیسی بنا کر چین‘ترکی اور روس سمیت دیگر ممالک سے اپنی قربت مزید بڑھائے گا۔
NA-120کے ضمنی انتخابات کی انتخابی مہم تن تنہا مریم نواز نے چلائی جسے قدم قدم پر عدم تعاون‘رکاوٹوں‘دھمکیوں اور دیگر مشکلات کا سامنا بھی تھا۔جبکہ عمران خان نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ اگر عوام عدلیہ کے فیصلے کو مانتے ہیں توNA-120 میں کلثوم نواز کے خلاف ووٹ دیں۔اسی طرح کلثوم نواز کے ووٹ تقسیم در تقسیم کرنے کیلئے کئی امیدوار میدان میں اتارے گئے۔اس منظم سازش سے صرف اتنا ہو سکا کہ 2013 کیعام انتخابات کی نسبت ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت کا ووٹ آزاد امیدواروں میں تقسیم ہوا جس کی وجہ سے فتح کے مارجن میں کمی ہوئی۔جبکہ تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود ایک طرف حکمران جماعت کو بھر پور کامیابی حاصل ہوئی لیکن پی ٹی آئی کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد کو 2013کی نسبت کم ووٹ ملے اور عمران خان نے انتخابی مہم میں جو نظریہ پیش کیا تھا کہ اگر عوام عدلیہ کا فیصلہ مانتے ہیں تو کلثوم نواز کے خلاف ووٹ دیں۔NA-120کے نتائج کے بعد کم از کم عمران خان میںاتنی اخلاقی جرأت ہونی چاہئے کہ اپنے پیش کردہ نظریہ کے مطابق ہی یہ بات تسلیم کر لیں کہ عوام نے عدلیہ کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا۔
مریم نواز نے بہت شاندار طریقے سے انتخابی مہم چلائی ااور اپنے انکل چوہدری نثار کو یہ باور کرادیا کہ وہ سیاست کرنا جانتی ہیں۔NA-120کی پولنگ کے دن میں خود حلقے میں موجود تھا‘ سارا ماحول رکاوٹیں‘دھمکیاں میں نے خود دیکھیں۔جبکہ نواز لیگ کے سرگرم لوگوں کو غائب بھی کیا گیا لیکن اس بارے میں ادارے وضاحت دینے کے بجائے خاموش رہے۔
اگر موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرتے ہوئے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرنے میں جاری منصوبوں کی بروقت تکمیل‘کراچی گرین بس منصوبہ‘کراچی لاہور موٹر وے مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ CPECمنصوبوں پر تیز ترین پیش رفت میں کامیاب ہو جاتی ہے تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ کراچی تا خیبر امن‘ترقی اور خوشحالی لانے کی وجہ سے آئندہ انتخابات میں بھی نواز لیگ کو کوئی شکست نہیں دے سکتا کیونکہ عوام نے NA-120میں پانامہ پر ہنگامہ کرنے والوں کو اپنا مکمل فیصلہ سنا دیا ہے۔صرف اس فیصلے کو تسلیم کرنے کی اخلاقی جرات درکارہے۔
ایرانی صدر کا دورہ، واشنگٹن کے لیے دو ٹوک پیغام؟
Apr 24, 2024