انقلاب اور آزادی مارچ کے دھرنوں نے نامساعد حالات کے باوجود ایک ماہ پورا کرکے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نیا ریکارڈ قائم کردیا ہے جس کا کریڈٹ عوامی تحریک اور تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنوں کو جاتا ہے جو انقلاب اور تبدیلی کے جذبے سے سرشار ہیں۔ انقلاب ڈاکٹر طاہرالقادری کا خواب ہے جو وہ زندگی بھر دیکھتے رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کی تربیت بھی انقلابی جذبے کے ساتھ کی۔ 2002ء کے انتخابات میں حصہ لینے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ انتخابات کے ذریعے انقلاب ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے 2013ء کے انتخابات سے پہلے انتخابی اصلاحات کے لیے اسلام آباد میں ایک کامیاب دھرنا دیا۔ عوامی تحریک کے کارکن شدید سردی میں تین دن تک ڈی چوک میں ڈٹے رہے یہ دھرنا نتیجہ خیز ثابت نہ ہوا البتہ پاکستان کے عوام کھوکھلے اور جعلی انتخابی نظام سے آگاہ ضرور ہوگئے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اپنی سیاسی قوت تسلیم کرانے میں کامیاب ہوگئے۔پاکستان میں 2013ء کے انتخابات کے بعد میاں نواز شریف تیسری بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوگئے۔ انہوں نے ریاست کو جمہوری اصولوں کی بجائے بادشاہت کے طرز پر چلانا شروع کردیا، جس سے ان کے اسٹیبلشمینٹ کے ساتھ اختلافات پیدا ہوگئے۔ میاں نواز شریف کے مخالفین نے سول ملٹری ٹینشن سے سیاسی فائدہ اُٹھانے کا فیصلہ کیا اور لندن پلان سامنے آیا۔ گھر کے بھیدی باغی جاوید ہاشمی خفیہ منصوبے کے خدوخال منظر عام پر لاچکے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کا مطالعہ بڑا وسیع ہے، ان کو ادراک تھا کہ عوام کی بھاری تعداد میں شرکت کے بغیر انقلاب برپا نہیں کیا جاسکتا ،اس لیے انہوں نے انقلاب میں شرکت کے لیے ایک کروڑ نمازیوں کا ٹارگٹ رکھا جو مبالغہ آمیز ثابت ہوا۔ انقلاب کی پہلی شرط یہ ہے کہ انقلاب کی قیادت کرنے والے لیڈر کو ملک بھر میں عوام کا اعتماد حاصل ہو۔ ڈاکٹر طاہرالقادری پرزور جذباتی اپیلوں کے باوجود عوام کا اعتماد حاصل نہ کرسکے البتہ عوامی تحریک کے ہزاروں کارکن ان کی آواز پر لبیک کہنے کو تیار تھے۔
سانحۂ ماڈل ٹائون نے انقلابی تحریک میں خون شامل کردیا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری، عمران خان، چوہدری برادران، مجلس وحدت المسلمین اور شیخ رشید کا خیال تھا کہ وہ سب مل کر لاکھوں عوام اسلام آباد لے جاسکتے ہیں اور عوامی دبائو سے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا جاسکتا ہے اور دو سال کی ٹیکنو کریٹ کی حکومت تشکیل دی جاسکتی ہے۔ اس خفیہ ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ’’انقلاب‘‘ اور ’’آزادی‘‘ کو سلوگن کے طور پر استعمال کیا گیا۔ بلاشک عوامی انقلاب پاکستان کے مسائل کا واحد حل ہے مگر انقلاب کے لیے لازم ہے کہ انقلاب کی قیادت ایسے لیڈر کے ہاتھ میں ہو جو پاکستان بھر میں مقبول ہو۔ انقلاب کا واضح انقلابی قومی ایجنڈا ہو جس پر ہر شہری کو اعتماد ہو۔ انقلابی تحریک میں مزدور، کسان، محنت کش اور مڈل کلاس کے افراد شامل ہوں۔ پاکستان میں انقلاب دشمن حلقے بڑے منظم، طاقتور اور مستحکم ہیں۔ موجودہ نظام میں فوج سب سے بڑی سٹیک ہولڈر ہے دیہی و شہری زمینوں پر قابض ہے۔وہ سکول، بنک، یونیورسٹی، ائیر لائن، فرٹیلائزر، کنسٹرکشن ، ہیوی مکینکل، فوڈ پراسیسنگ کے شعبوں میں شامل ہے۔ پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتیں موجودہ نظام سے فیض یاب ہورہی ہیں۔ تجارتی مافیا بڑا مضبوط ہے۔ پولیس استحصالی طبقات کی محافظ ہے۔ ان استحصالی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے غریب اور مظلوم عوام کا اتحاد لازمی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری انتہائی کوشش کے باوجود غریب عوام کی بھاری تعداد کو منظم نہیں کرسکے۔ انقلاب دھرنوں اور مذاکرات سے نہیں آیا کرتا نہ ہی انقلاب کسی آئین کا پابند ہوتا ہے بلکہ وہ اپنا آئین خود نافذ کرتا ہے۔ اگر دس لاکھ انقلابی عوام اسلام آباد میں داخل ہوکر اقتدار پر قبضہ کرلیں تو ریاست کے تمام ادارے اس کے تابع ہوجائیں گے اور انقلاب کی قیادت کرنے والا لیڈر مذاکرات کی بجائے اپنے فرمان جاری کرے گا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری اور عوامی تحریک کے کارکن پرخلوص جذبے کے باوجود انقلاب برپا نہیں کرسکتے البتہ انہوں نے تاریخ ساز کام کردکھایا ہے اور عوام کو انقلابی اور سیاسی شعور سے مسلح کردیا ہے۔ طاہرالقادری انقلاب کا اگلا مرحلہ مستقبل کے نوجوانوں پر چھوڑ دیں۔
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
ایک نئے پاکستان کی تشکیل عمران خان کا خواب ہے۔ وہ یہ خواب انقلاب نہیں بلکہ صاف شفاف انتخابات کے ذریعے پورا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ غلط فہمی یا خوش فہمی ان کے دماغ میں بیٹھ چکی ہے کہ 2013ء کے انتخابات چرالیے گئے اور وہ وزیراعظم نہ بن سکے۔ پاکستان کے عوام کو ان کی نیت کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے البتہ ان کی اہلیت کے بارے میں تحفظات ضرور تھے جو اسلام آباد میں ان کی ’’پرفارمنس‘‘ کے بعد مزید گہرے ہوگئے ہیں۔ ہاشمی لیکس کے مطابق ان کو ’’سبز باغ‘‘ دکھائے گئے اور انہوں نے ڈاکٹر طاہرالقادری سے خفیہ مفاہمت کرلی تاکہ اسلام آباد پہنچ کر عوامی سیاسی طاقت اس قدر ہو جائے کہ وزیراعظم پر دبائو ڈال کر ان سے استعفیٰ لیا جاسکے۔ ٹیکنو کریٹس کی حکومت تشکیل پائے جو احتساب اور اصلاحات کرکے عمران خان کے لیے وزیراعظم بننے کے لیے راستہ ہموار کرسکے۔ عمران خان کا مطالبہ اگر دھاندلی تک محدود رہتا تو اپوزیشن کی جماعتیں ان کے ساتھ کھڑی نہ بھی ہوتیں مگر غیر جانبدار ضرور رہتیں۔ عمران خان نے ٹیکنو کریٹس حکومت کی بات کرکے پارلیمانی جماعتوں کو خوفزدہ کردیا اور وہ عمران خان کو تنہا چھوڑ کرمیاں نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہوگئیں۔ وزیراعظم کے استعفے پر اصرار کرکے بھی عمران خان نے اپنے مقدمے کو کمزور کرلیا ان کو انتخابی دھاندلی کے بارے میں صاف شفاف تحقیقات پر زور دینا چاہیئے تھا۔ فرض کریں اگر وزیراعظم مستعفی ہوبھی جائیں تو نیا وزیراعظم بھی انہی کا نامزد مسلم لیگ ہوگا اور عمران خان اپنی توقع اور خواہش کے مطابق سیاسی ریلیف کیسے حاصل کرسکیں گے۔ جہاں تک عمران خان کے ’’نیا پاکستان‘‘ کے سلوگن کا تعلق ہے پاکستان کے عوام ان کے ساتھ ہیں۔ وہ تبدیلی چاہتے ہیں مگر یہ مقصد نئے انتخابات کے بعد ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ عمران خان آئین اور قانون کی حکمرانی کی بات کرتے ہیں اور خود ہی قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر پولیس سٹیشن سے کارکنوں کو زبردستی چھڑا کر لے آتے ہیں۔ وہ نئے پاکستان کا کیسا چہرہ لوگوں کو دکھا رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ پاکستان ہرگز عوام کی توقعات کے مطابق نہیں چل رہا۔ پاکستان کے ریاستی نظام میں انقلابی نوعیت کی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ہمارا جمہوری نظام اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ پاکستان میں عدل و انصاف نہیں ہے۔ آئین اور قانون کی حکمرانی نہیں ہے۔ کرپشن عروج پر ہے۔ غربت اور جہالت میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں ،کروڑوں نوجوان بے روزگار ہیں۔ قومی دولت کی تقسیم غیر منصفانہ ہے۔ پاکستان کی ریاست حکومت اور معیشت میں عام آدمی کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ قائداعظم کی بصیرت اور نظریے کے مطابق پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بننا تھا مگر یہ استحصالی ریاست بن چکا ہے۔ احتساب کا کوئی مؤثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے اشرافیہ لوٹ مار میں مصروف ہے۔ عوام کو تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم نہیں ہیں۔ ان حالات میں پاکستان ترقی نہیں کرسکتا۔ عمران خان کا نئے پاکستان کا تصور درست ہے اور عوام کے لیے پرکشش بھی ہے۔ عمران خان کو اپنے عمل سے ثابت کرنا ہے کہ وہ نیا پاکستان تشکیل دینے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان نے بڑے جذبے اور عزم سے موجودہ ریاستی نظام اور اشرافیہ کی جمہوریت کو بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے۔ اسلام آباد میں دھرنوں کے خطاب سے پاکستانی قوم باشعور اور بیدار ہوئی ہے۔ دونوں لیڈروں نے قومی امراض کی تشخیص تو کی ہے مگر ابھی تک ان امراض سے شفا کے لیے کوئی نسخہ کیمیا دینے سے قاصر رہے ہیں۔
ایرانی صدر کا دورہ، واشنگٹن کے لیے دو ٹوک پیغام؟
Apr 24, 2024