لوگ بحران بحران کرتے پھر رہے ہیں لیکن مجھے بحران کہیں بھی نظر نہیں آ رہا! ہاں ایک بات جو مجھے سمجھ آ رہی ہے وہ یہ کہ ایک گونج میں اچھی اور بری باتیں مکس ہو گئی ہیں۔ شور ہی شور ہے، مر گئے، لٹ گئے، برباد ہو گئے، بدعنوانی نے مار ڈالا، مار گیا امریکہ وغیرہ وغیرہ۔ دوسری طرف بلند آوازیں ہیں کہ ترقی ہی ترقی ہے۔ حالات 2013ءسے بہت مختلف ہیں، بجلی آ گئی ہے۔ لاہور پیرس بن گیا ہے، جی! موٹروے والوں نے سڑکوں کے جال بچھا دیئے ہیں۔ دہشتگردی کا خاتمہ ہو گیا ہے، وغیرہ وغیرہ! کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی یا ہم سننا نہیں چاہتے؟ دراصل یہ وہ سوال ہے جس کا مجھے جواب نہیں مل رہا۔
چار قسم کے آئینی بحرانوں کا سامنا امریکہ کو بھی ہے تاہم اس کی چودھراہٹ کہئے یا بدمعاشی، ان کو تو کوئی خطرہ نہیں۔ کلنٹن ہو، بش یا اوباما بے شک ٹرمپ ہی کیوں نہ ہو امریکہ گلوبل ولج کا نمبردار تھا اور ہے۔ اس وقت تک ہے جب تک قحط الرجال اس کا دامن تار تار نہیں کر دیتا۔ کوئی کچھ بھی کہے۔ کانگرس سے زیادہ مضبوط وہاں صدر ہوتا ہے اور صدر سے طاقتور پینٹا گون، آئینی بحران امریکہ کے سنگ سنگ چل کر جوان ہوئے ہیں۔ آج بھی امریکہ اگر عہد شباب پر ہے تو بحران، بالکل جناب، آئینی بحران بھی جوانیاں مان رہے ہیں۔ ہاں آئینی بحران کی چار قسمیں جو امریکہ آج بھی انجوائے کر رہا ہے، (1 کئی مواقع پر آئین خاموش ہے۔ (2 کہیں آئین بولتا ہے مگر سوالوں میں۔ (3 بعض معاملات میں آئین بولتا ہے مگر سیاست کے لئے قابل قبول نہیں ہوتا۔ (4 آئین کی اپنی بولی درست مگر کہیں ادارے اپنی کم فہمی سے فیل ہونے کے در پے ہیں۔ آئین یہ چاروں باتیں اپنی جگہ اور کانگرس پر صدر بھاری، صدر پر پینٹا گون بھاری اور ان سب پر امریکی اخلاقیات و روایات اور لیڈر شپ کی فہم و فراست بھاری ہے جو امریکہ ہر معاملے میں وکٹری سٹینڈ پر نظر آتا ہے۔
بات بڑی سیدھی سی ہے کہ قیادت میں اگر جمہوری دم خم ہو تو وہ اپنا لوہا منوالیتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اپنی ذات یا اپنی خواہشات کا لوہا۔ اس کا مطلب بڑا صاف ہے کہ جمہوریت، اخلاقیات اور نظریات کا لوہا۔ لیڈر بھنور اور گرداب سے نکالنے والی شخصیت کا نام ہوتا ہے پھر جمہوریت بھی کسی بند گلی کا نام کبھی نہیں ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اچھی قیادت کے زیر سایہ پارلیمنٹ ترامیم کے ذریعے جمہوریت کے لئے راستے ہموار کرتی رہتی ہے اور اسے بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ آئین امریکہ میں بھی اس سیٹ اپ کا نام ہے جس میں طاقت ، صدر، کانگرس، عدالتیں اور فیڈرل و سٹیٹ گورنمنٹس کے مابین شیئرنگ پراپرٹی ہے۔
ایک چھوٹی سی مگر اہم بات سمجھنے والی یہ بھی ہے کہ قیادت اگر قوم کی ہو تو یہ شہنشاہیت نہیں ہوتی۔ مقدم قوم ہی ہوتی ہے۔ زیرک قیادت آئین کی خاموشی، آئین کے سوالات، سیاست کے لئے ناقابل قبول آئینی پہلو اور آئین کے حوالے سے کم فہم اداروں جیسے معاملات میں بھی راستہ نکال لیتی ہے۔ لیکن یاد رکھئے راستہ نہ نکلے تو پھر ملک دو لخت بھی ہو جایا کرتے ہیں۔ 1973ءکے آئین میںبھٹونے سوشلزم کو آئین کا حصہ بنایا؟ ذرا یہ بھی غور کر لیجئے بھٹو اور مجیب الرحمن کے حوالے سے اقتدار کی منتقلی آئین کے مطابق تھی؟ کیا نتیجہ اہل نظر، آج کی پی ٹی آئی، پی ایم ایل این اور پی پی پی قیادتوں کو یاد ہے؟مطلب ان سب باتوں کا ہے کہ بیدار مغز قیادت تین کاموں کے لئے ہے۔ (1 آئین سازی کی صلاحیت سے مالا مال ہو۔ (2 ترامیم کی اہمیت سے وقت کے مطابق آشنا ہو اور (3 آئین کے سوالات کو جوابات دینے کا ہنر رکھتی ہو۔ مثال کے طور پر آئین کی دفعات 62 اور 63 کے مطابق صادق اور امین خاتم النبین محمد مصطفےٰ کے دور والا چاہئے کہ اس دور والا؟ بہر حال چاہئے تو لازمی، اگر قیادت صادق اور امین نہیں تو قیادت کیسی؟ لوگ امریکہ کی بہت باتیں کرتے ہیں۔ سو ایک وضاحت حاضر ہے کانگرس کے اوپر صدر اور صدر کے اوپر پینٹا گون، پینٹا گون کا مطلب جی ایچ کیو ہی بنتا ہے لیکن تھوڑا سا تھنک ٹینک کا تڑکا لگا کر پینٹا گون ہی سکیورٹی اور ملکی سلامتی کا تکڑا اور با اثر ادارہ ہے لیکن فائنل دستخط بہر حال صدر ہی کے ہوں گے۔ یعنی کانگرس اور پینٹا گون کی موجودگی میں ممتاز ہونے کےلئے امریکی صدر میں قیادت کی چمک دمک ضروری ہے۔ ورنہ وہاں بھی جی ایچ کیو، جی ایچ کیو ہی ہے اور عدالتیں بھی بہر حال عدالتیں!یہ بات1932-37ءکی ہے۔ امریکی صدر روز ویلٹ تھا۔ جنگی معاملات کے بعد بھوک ننگ ناچ رہا تھا۔ اس زمانے کے تھنک ٹینک نے کہا ”معاشی مارشل لائ“ لگا دیا جائے۔ عدالتوں نے مخالفت کر دی۔ روز ویلٹ نے کہا میں دوسری بار صدرمنتخب ہوا ہوں اور لوگوں کی میرے حوالے سے توقعات ہیں اور ججز آڑے آ رہے ہیں۔ اس نے دیکھا ججز کی تعداد کے حوالے سے آئین خاموش ہے۔ پس اس نے ججوں کی تعداد بڑھائی، معاملے کا حل نکالا اور مسئلہ پیدا نہ ہونے دیا۔ ایویں ہی نہیں ہوتا کہ امریکی قیادت کو دنیا اپنی قیادت مانتی ہے۔ الیکشن 2000ءمیں فلوریڈا امریکی سٹیٹ میں بش الگور اور کلنٹن میں کوئی بھی واضح فاتح نہ تھے۔ جھگڑے بھی شروع تھے اور احتجاج بھی لیکن عدالتوں نے سیاسی بحران سے بچنے کے لئے الگور کی شکست جنبش قلم سے کندہ کر دی۔ الگور نے کہا ”میں عدالتی فیصلے سے اتفاق نہیں کرتا مگر اسے تسلیم کرتا ہوں!“ اہل نظر کے لئے اس میں بھی ایک سبق ہے۔ امریکی صدر ولیم ہنری1841 مےں دوران صدارت مرتا ہے تو آئین میں نہیں تھا کہ نائب صدر کیا اختیارات رکھے گا۔ بہر حال نائب صدر جان ٹائیلر نے کہا میں نائب بہر حال نیا صدر ہوں اور وہ چیف ایگزیکٹو ہوا جسے آئین نے 25 ویں ترمیم کے ذریعے تسلیم کیا۔ واہ امریکیو! قیادت کے کمال کو دوام بخشنا آپ پر ختم ہے اوباما قتل و غارت بھی خوب کرائے مگر نوبل انعام بھی پائے۔ بھئی واہ!آخری بات، کرپشن کے خاتمے اور انسانی حقوق کی پاسداری کے لئے آئین کی کون مانتا ہے؟ قیادت کو کلچر بنانا اور دینا پڑتا ہے جیسے امریکہ کو آئین امریکہ نہیں بناتا بلکہ قیادت بناتی ہے۔ اگر پاکستان میں آئین کے سیٹ اپ کا پس منظر اور پیش منظر دیکھنا ہے تو اس میں طاقت وزیراعظم، قومی اسمبلی، عدالتوں، افواج پاکستان، صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے مابین شیئرنگ پراپرٹی ہے۔ اس میں چھیڑ خانی ماضی میں بھی خرابی کا باعث بنی اب بھی بن سکتی ہے لیکن قیادت میں گراخلاقیات و روایات اور فہم و فراست ہے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ وزیر داخلہ صاحب! بات وضاحتوں کی نہیں صداقتوں کی ہے۔ ادارے مضبوط نہ ہوئے تو کچھ بھی مضبوط نہیں رہے گا۔ احتساب عدالت کے جج کے ساتھ بہر کیف جسٹس سجاد علی شاہ والا واقعہ دہرایا گیا ہے۔ باقی آپ کی مرضی کہ اکنامکس کی بات وزیر خزانہ کے بجائے وزیر داخلہ کرے۔ آج کل کا رویہ تو بتاتا ہے کہ جناب احسن اقبال صاحب! آپ کو کسی کی بھی بات پسند نہیں وہ صحافیوں اور اپوزیشن کو تو آپ نے ”تکلفاً “ چھوٹ دے دی۔
جناب ! یہ سویلین آرمی ”شکوہ، جواب شکوہ“ کا سبب قیادت میں فراست کا فقدان ہے۔ شورو غل میں دونوں اطراف کی آوازیں نہ دبائیں بلکہ عقل و فہم سے مصنوعی بحران دبائیں!۔
٭....٭....٭....٭....٭....٭....٭
ایرانی صدر کا دورہ، واشنگٹن کے لیے دو ٹوک پیغام؟
Apr 24, 2024