غیرت پر قتل میں صلح نہیں کم از کم عمر قید ہوگی زیادتی مقدمات کا فیصلہ 90 روز کے اندر

اسلام آباد (نامہ نگار+ نوائے وقت نیوز+ نیوز ایجنسیاں) پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کی بڑی جماعت پیپلز پارٹی کے غیرت کے نام پر قتل اور زنا بالجبر (انسداد عصمت دری) کے جرائم کی سخت سزائوں کے دونوں بلز کو اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا۔ بلز کی منظوری کے موقع پر ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت ایوان سے غائب تھی غیرت کے نام پر قتل کے جرم کی سزا کے بل میں حکومتی ترامیم کو شامل کر لیا گیا ہے جس کے تحت اصل بل سے اس جرم کو فساد فی الارض قرار دینے کی شق بھی تبدیل کر دی گئی ہے اور مقدمے کو عدالت کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے وہ جرم کی نوعیت دیکھ کر اس حوالے سے فیصلہ کر سکے گی۔ زنا بالجبر کے کیسز کی تفتیش کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کو بھی قانونی حیثیت حاصل ہو گئی ہے، ان کیسز کا ان کیمرا ٹرائل ہو گا متاثرہ خاتون کے کردار کے بارے میں دوران سماعت سوالات ہو سکیں گے نہ اس خاتون کے نام کو نشر یا شائع کیا جا سکے گا۔ قانون کے تحت زنا بالجبر میں ملوث پولیس اہلکاروں کی سزائوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے اور وہ اپنی ملازمتوں پر برقرار نہیں رہ سکیں گے، بلز صدر کے دستخط سے ایکٹ آ ف پارلیمنٹ بن جائیںگے۔ بلز پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے پیش کیے۔ جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے انہیں اسلامی نظریہ کونسل کے سپرد کرنے کا مطالبہ کیا جبکہ کیپٹن (ر) صفدر نے غیرت کے نام پر قتل کے بل پر تحفظات کا اظہار کیا اور ووٹ نہیں دیا۔ دونوں ایوانوں کے 446 ارکان پر مشتمل پارلیمنٹ میں ان بلز کی منظوری کے موقع پر 65 ارکان ایوان میں موجود تھے۔ آئی این پی کے مطابق غیرت کے نام پر قتل فساد فی الارض شمار ہو گا، بل کے تحت غیرت کے نام پر قتل کرنے والے کو 25 سال قید کی سزا ہو گی،متعددارکان پارلیمنٹ نے کشمیر کے حوالے سے بحث کو نظر انداز کرکے بل کو زیر بحث لانے پر تحفظات کا اظہار کیا، ارکان پارلیمنٹ نے کہا غیرت کے نام پر قتل معاشرے کا ناسور ہے اس کا ہمیشہ کے لئے سدباب ہونا چاہے، قانون کو کسی صورت میں اندھا نہیں بنانا چاہئے‘ موجودہ صور ت میں بل پاس کیا گیا تو ہم اس میں ترامیم لائیں گے، غیر ت کے نام پر قتل کے عوامل کو حل کیا جائے، مصالحت پر قدغن لگانے سے قتل و غارت کا رستہ نہیں رکے گا۔ ان خیالا ت کا اظہار اعتزاز احسن، فرحت اللہ بابر، سید نوید قمر، سینیٹر حافظ حمداللہ، نعیمہ کشور، سینیٹر شیری رحمن، شائستہ پرویز، بیرسٹر محمد علی سیف و دیگر نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران غیرت کے نام قتل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کیا۔ فرحت اللہ بابر نے کہا بل میں قتل کرنے والوں کو معافی کا راستہ دیا گیا ہے جس پر اعتراض ہے۔ نوید قمر نے کہا موجودہ صور ت میں بل پاس کیا گیا تو ہم اس میں ترامیم لائیں گے۔ سینیٹر حافظ حمداللہ نے کہا مذہبی جماعتوں پر الزام لگایا جاتا ہے وہ غیرت کے نام پر قتل کی حامی ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل ایک جرم ہے۔ قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی نہیں ہو سکتی۔ بی بی سی کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات کو ناقابل تصفیہ قرار دیا گیا ہے اور بل کے تحت مجرم قرار دیئے جانے والے شخص کو عمر قید سے کم سزا نہیں دی جا سکے گی۔ حزب مخالف کی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے اس بل میں دی گئی سزائوں پر تحفظات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا جو بل سینٹ میں پیش کیا گیا تھا اس میں ان جرائم کی سزائے موت تجویز کی گئی تھی جس پر وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا مجرم کو 25 سال سے کم سزا نہیں ہو سکے گی۔ خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں نے دونوں بلوں کی منظوری کے بعد اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اسلام آباد سے نمائندہ خصوصی کے مطابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون سازی پر پارلیمنٹ اور قوم کو مبارکباد دی ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا غیرت کے نام پر قتل پاکستان کو درپیش مسائل میں سے ایک ہے اور حکومت معاشرے پر لگے اس داغ کو مٹانے کے لئے تمام ممکنہ طریقے اختیار کرنے کے لئے پرعزم ہے۔ نامہ نگار کے مطابق فساد فی الارض پھیلانے والوں کو دیت یا سمجھوتہ ہو جانے کی بھی صورت میں عمر قید دینا لازمی ہوگیا ہے۔ ریپ کیسز میں ڈی این اے ٹیسٹ تفتیشی عمل کا لازمی حصہ ہوگا۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے بل کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا خاندان کا ایک فرد غیرت کے نام پر قتل کرتا ہے اور دوسرا قصاص و دیت کے نام پر معاف کر دیتا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل اسلامی نظریہ کا ایشو نہیں بلکہ یہ بل خواتین سے متعلقہ ہے اور ایک سیاسی معاملہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں بل کو دوبارہ کمیٹی کو بھجوا دیں تاکہ ہم اس پر معترض ساتھیوں کو دوبارہ قائل کرسکیں۔ اس میں موت کی سزا نہ رکھی گئی تو غیرت کے نام پر قتل ہوتے رہیں گے۔ صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا آئین کے آرٹیکل 229 کے تحت اس بل پر اسلامی نظریہ کونسل کی رائے لینا چاہئے۔ راضی نامہ کرنے کا قرآن میں اللہ کا حکم ہے۔ اس سے انحراف نہیں کیا جاسکتا۔ سینیٹر حافظ حمد اللہ نے کہا غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے مذہبی جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ قرآن کا حکم ہے جس نے ایک انسان کا قتل کیا اس نے ساری انسانیت کا قتل کیا۔ اس پر ہمارا ایمان ہے۔ نعیمہ کشور خان نے کہا قصاص کا حق قرآن نے دیا ہے اس لئے کم سے کم عمر قید کی سزا کا فیصلہ ہوا۔ اعتزاز احسن نے نے اپنی جماعت کے ارکان سے مطالبہ کیا اس بل کو ایسے ہی منظور ہونے دیا جائے۔ جمشید دستی نے کہا کشمیر کے حوالے سے طلب کئے گئے اجلاس کے موقع پر بل کو لانے کا کوئی جواز نہیں تھا، ہمیں کسی کے من مانے قانون منظور نہیں کرنے چاہئیں۔ یہ پارلیمنٹ آزاد ہے یا امریکہ کے تابع ہے، قرآن ایک مکمل ضابطہ حیات ہے وہ راستہ ہم نے چھوڑ دیا اور ہم ذلیل و خوار ہو رہے ہیں، امریکہ کے ایماء پر ایسے کالے قوانین پاس نہ کئے جائیں۔ کیپٹن (ر) محمد صفدر نے کہا ہمیں 1973ء کے آئین سے ماورا قانون سازی نہیں کرنی چاہئے۔ ہمیں کسی اور کے ایماء پر اپنے قوانین نہیں بدلنے چاہئیں۔ بل کو نظرثانی کے لئے کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔ وزیر قانون زاہد حامد نے کہا بل پر دونوں ایوانوں میں اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے مشترکہ اجلاس میں بھیجا گیا ہے۔ وزیراعظم اور حکومت کی پالیسی ہے غیرت کے نام پر قتل جیسی لعنت ہمیشہ کے لئے ملک سے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ دیت یا سمجھوتہ ہونے کی بھی صورت میںفساد فی الارض پھیلانے والے کو عمر قید دی جا سکے گی۔ سپیکر نے بل کی تمام شقوں کی منظوری حاصل کی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے بل کی اتفاق رائے سے منظوری دیدی۔ فرحت اللہ بابر نے کہا بل میںریپ مقدمات میں ترمیم کی گئی ہے، ڈی این اے ٹیسٹ کو تفتیشی عمل کا لازمی حصہ قرار دیا گیا ہے، پہلے عدالت کے کہتی تھی ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جائے اب یہ فوری ہوگا، اب ریپ کیسز میں خواتین کے کردار پر بحث نہیں ہو گی، متاثرہ خاتون کی تشہیر بھی نہیں ہو سکے گا جبکہ تھانے کے اندر ریپ کی سز موت ہو گی، یہ ریپ کے واقعات کے انسداد کیلئے بڑا اہم بل ہے۔