افغانستان میں بھارت کی موجودگی میں امن ممکن نہیں

افغانستان میں بھارت کی موجودگی میں امن ممکن نہیں

افغان مفاہمتی عمل کے دوبارہ آغاز کیلئے16 جنوری کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہونیوالے اعلیٰ سطحی اجلاس کو حتمی شکل دیدی گئی۔ افغان مفاہمتی عمل کو بڑھانے کیلئے پاکستان نے چین،امریکہ اور افغانستان کے نمائندوں کو دعوت نامے ارسال کردئیے۔
نیٹو فورسز کی طرف سے سکیورٹی ذمہ داریاں افغان فورسز کو سونپے جانے کے بعد تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ پرامن افغانستان خطے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بھی بہترین مفاد میں ہے۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت اسی لئے افغانستان کو پرامن بنانے کیلئے کوشاں ہے۔ 16 جنوری کا اجلاس بلانے کا فیصلہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورہ کابل کے بعد کیا گیا ہے۔ امریکہ نے صحیح طریقے سے افغان فوج کی تربیت کی ہوتی تو وہ عسکری امور پوری طرح سنبھال لیتی۔ حالت یہ ہے کہ وہ طالبان سے مقابلے کے بجائے مقبوضات خالی کرکے بھاگ جاتی ہے۔ افغانستان کے امن عمل میں طالبان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ طالبان اور افغان انتظامیہ کو پاکستان مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کر چکا ہے یہ کوششیں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئی ہیں تاہم کچھ علاقائی قوتیں افغانستان کو شورش میں مبتلا دیکھنا چاہتی ہیں۔ ان میں بھارت بھی شامل ہے۔ جس کی افغانستان میں مداخلت مسلمہ ہے۔ وہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں مداخلت کرتا ہے۔ چین اور پاکستان بھارت کے منفی کردار کا خاتمہ چاہتے ہیں جبکہ امریکہ اور افغانستان دوستی اور قریبی تعلقات کے باعث بھارت کی افغانستان میں موجودگی پر معترض نہیں ہیں۔ 16 جنوری کے مذاکرات میں اس نکتے پر خصوصی غور و خوض کی ضرورت ہے۔