مغربی ممالک غاصب اسرائیل کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں

مغربی ممالک غاصب اسرائیل کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں

ناجائز ریاست اسرائیل کی طرف سے فلسطینی علاقوں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے جس کے نتیجے میں سینکڑوں مظلوم فلسطینی شہید ہورہے ہیں۔ مسلسل ہونے والے اسرائیلی فضائی حملوں سے گھروں کے علاوہ ہسپتالوں کی عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ غاصب صہیونی فلسطینی مہاجر کیمپ جبالیہ پر بھی حملہ کرچکے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کے لیے ایندھن، خوراک ، پانی اور بجلی سمیت تمام ضروری اشیاءکی رسد معطل کررکھی ہے اور غزہ میں ہی اب تک، اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق، سوا لاکھ کے لگ بھگ افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ اس سب کے باوجود مسلم ممالک خاموش تماشائی بن کر سب کچھ دیکھ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف مغربی ممالک پوری طرح کھل کر جابر صہیونیوں کا ساتھ دے رہے ہیں اور انھیں ہر قسم کی امداد و اعانت فراہم کر کے ان کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں۔
امریکا پہلے ہی جلتی پر تیل ڈالتے ہوئے غاصب اسرائیل کے لیے آٹھ ارب ڈالر کی جنگی امداد کا اعلان کرنے کے علاوہ اپنے جنگی بحری بیڑے کو اسرائیل کے قریب لے جانے کا اعلان کرچکا ہے اور اب یورپی یونین، جرمنی اور آسٹریا نے فلسطین کے لیے مالی امداد بند کردی ہے۔ علاوہ ازیں، تمام نئے بجٹ پروپوزلز کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے۔ یورپی یونین کے فیصلے کے دور رس نتائج ہوں گے کیونکہ اس کی وجہ سے فلسطین کے لیے مختص 69 کروڑ 10 لاکھ پاونڈ کی ترقیاتی امداد متاثر ہوگی۔ یہ صورتحال فلسطینیوں سے زیادہ مسلم ممالک کے ان حکمرانوں کا امتحان ہے جو ہر طرح کی طاقت رکھنے کے باوجود اس سلسلے میں کوئی ایسا اقدام نہیں کررہے جس کے ذریعے ظالم کا ہاتھ روکا جاسکے۔ مسلم ممالک نے جو مختلف قسم کے اتحاد وغیرہ تشکیل دے رکھے ہیں اس صورتحال نے ان کی بھی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔
مسلم ممالک میں سعودی عرب کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اور یہ خوش آئند بات ہے کہ موجودہ صورتحال کی سنگینی کو پیش نظر رکھتے ہوئے سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ تمام مذاکرات ختم کر دئیے ہیں۔ سعودی عرب نے امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن کو مطلع کیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے حوالے سے تمام مذاکرات ختم کر رہا ہے۔ قبل ازیں، سعودیہ جس طرح اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کررہا تھا اس سے یہ امکان پیدا ہوا تھا کہ ان دونوں ملکوں کے مابین سفارتی تعلقات قائم ہونے سے فلسطینیوں کے حقوق کے لیے مسلم ممالک کی طرف سے کی جانے والی جدوجہد کو نقصان پہنچے گا۔ اسی وجہ سے امریکا نے اسرائیل پر حماس کی طرف سے کیے جانے والے حملے کے بعد اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ممکن ہے یہ حملہ ایران نے کرایا ہو تاکہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کو نقصان پہنچایا جاسکے۔
ادھر، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اعلان کیا ہے کہ میں فلسطین کی ویسی مدد کرنے کو تیار ہوں جیسے امریکہ اسرائیل کی مدد کرتا ہے۔ عملی طور پر ایسا ہونا تو ممکن دکھائی نہیں دیتا لیکن روسی صدر کا ایسا بیان دینا ہی ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ اسی طرح، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے غزہ کے مکمل محاصرے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں بجلی، ایندھن اور کھانے کی اشیاءکی فراہمی بند ہونے سے صورتحال مزید بگڑ جائے گی۔ انھوں نے اپنے بیان میں مطالبہ کیا کہ غزہ میں بے یارو مددگار فلسطینیوں کے لیے انسانی امداد نہ روکی جائے۔ ہیومن رائٹس واچ نے اسرائیلی وزیر دفاع کی غزہ کی مکمل ناکہ بندی کے بیان کی مذمت کی ہے۔ ڈائریکٹر ہیومن رائٹس واچ عمر گنج نے کہا ہے کہ مقبوضہ علاقے کی آبادی کو خوراک اور بجلی سے محروم کرنا جنگی جرم ہے۔
مسلم ممالک کی طرف سے تو مسلسل اس بات پر زور دیا جارہا ہے کہ کسی بھی طرح جنگ بندی کو ممکن بنایا جاسکے لیکن امریکا اور دیگر مغربی ممالک کے ارادے کچھ اور ہی دکھائی دیتے ہیں۔ اس صورتحال میں مسلم ممالک کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ متحد ہو کر مغربی ممالک اور ان کی قائم کردہ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کو واشگاف الفاظ میں یہ پیغام دیں کہ اگر مغربی ممالک نے اس جنگ میں کود کر اسرائیل کا ساتھ دیا تو پھر مسلم ممالک بھی پوری طرح فلسطین کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور اس کے بعد جو بھی نتائج نکلیں گے ان کی تمام تر ذمہ داری ان مغربی ممالک پر ہوگی جو جنگی صورتحال کو بڑھاوا دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس موقع پر اگر مسلم ممالک نے واضح طور پر مغربی ممالک کو یہ پیغام نہ دیا تو آنے والے دنوں میں پہلے تو فلسطینیوں کے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا اور پھر دیگر مسلم ممالک ایک ایک کر کے مغربی ممالک کی ان سازشوں کی زد میں آئیں گے جن کی وجہ سے افغانستان، عراق، لیبیا اور دیگر کئی مسلم ممالک مسائل کا شکار ہوچکے ہیں۔
آج مغربی ممالک اور ان کے ذرائع ابلاغ انسانی حقوق کی دہائیاں دیتے ہوئے غاصب صہیونیوں کے حق میں بات کررہے ہیں لیکن گزشتہ پون صدی سے اسرائیلی کی غاصب سکیورٹی فورسز کی طرف سے فلسطینیوں پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں ان کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کی زبان کو بل پڑ جاتا ہے۔ دوہرے معیارات کا عالم یہ ہے کہ مغربی میڈیا کی نظر میں روس کے خلاف لڑنے والے یوکرینی تو آزادی کے متوالے ہیں جو ایک غیر ملک کے اپنے وطن پر حملے کے خلاف نبرد آزما ہیں اور اپنی مقدس سرزمین کو صہیونیوں کے ناپاک شکنجے سے محفوظ رکھنے کی جدوجہد میں مصروف فلسطینی دہشت گرد ہیں۔ اگر یہ واقعی دہشت گردی ہے تو تمام مسلم ممالک کو مل کر اس میں فلسطینیوں کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے اور مغربی دنیا کے دوہرے معیارات کو ایسی ضرب لگانی چاہیے کہ ان کی حقیقت پوری دنیا پر واضح ہو جائے۔