یادش بخیر لاہور میں ایک "مولوی لہولہان"ہوا کرتا تھا شائد عبدالرشید یا محمد رشید نام ہوگا۔1970ء کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ابتدائی جیالوں میں اس کا شمار ہوتا تھا۔لاہور میں چلنے والی ویگن ٹرانسپورٹ کا صدر بھی تھا۔اس صدارت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے ہر ویگن کے عقبی شیشے پر مولوی لہولہان اس طرح لکھوایا ہوتا کہ لفظ لہولہان سے جیسے خون کے قطرے ٹپک رہے ہوں۔ یہ ویگنیں چونکہ لاہور کے کونے کونے میں جاتی تھیں،اسلئے مولوی لہولہان نے بھی لاہور میں بڑی شہرت حاصل کی۔ویگن مالکان سے فنڈ لے لیکر مال بنایا تو سیاست میں مزید آگے بڑھنے کا ارادہ کیا۔مگر پیپلز پارٹی کے دیگر جیالوں نے ایک نہ چلنے دی ،وہ خود ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔کوئی جلسے اُلٹانے والا" فتنہ"تو کوئی بجلی چوری کرنے والا کسی سٹیل فرنس کا مالک ،سبھی دیکھتے دیکھتے دولت میں کھیلنے لگے ۔اقتدار ایک امتخان ہوتا ہے کسی جماعت اسکے سربراہ یا کارکنوں کا۔ اس امتحان میں سیاسی جماعتوں کے مفت برکارکن اکثر ناکام ہو جاتے ہیں۔یہ "دیہاڑی باز" اور"کول ڈوڈے" اقتدار کھسکتا دیکھ کروقت سے پہلے ہی دائیں بائیں ہوجاتے ہیں۔پیپلز پارٹی کے مشکل وقت میں جہانگیر بدر ، اسلم گورداسپوری، کامریڈ،افتخارشاہد،راجہ ذوالقرنین ،لیاقت وڑائچ ، جسٹس جاوید بٹر،عبدالرزاق جھرنا،ادریس طوطی،شاہدہ جبیں، ساجدہ میر، آصف بٹ،خاور نعیم ہاشمی،زاہد اقبال غوری،یعقوب کھوکھر،اور وحید قریشی جیسوں نے تو پھانسیوں، شاہی قلعے،دارورسن اور خود سوزی تک کو گلے لگایا مگر اکثر مولوی لہولہان کی طرح غائب ہی ہوگئے۔ اب (ن)لیگ کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا نظر آرہا ہے۔(ن) لیگ سے لاہور کے علاقے گوالمنڈی کا ایک اور "مولوی ہلچل"یا دآگیا۔ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نو سیاسی جماعتوں کے اتحاد"پاکستان قومی اتحاد"کے جلسے میں پہلی بار اس کا نظارہ کرنے کا موقع ملا۔ ہوایوں کہ میں گوجرانوالہ باغبانپورہ میں اتحاد کے ایک جلسے سے خطاب کررہا تھا کہ اچانک بڑے سے پنڈال کے عین درمیان میں سے ایک مولوی اٹھا جس نے کچھ اس انداز میں رقص کرنا شروع کردیا کہ چاروں طرف گھومتا ۔برق رفتاری سے اپنے کو لہوں اور دونوں ہاتھوں کے تال میل سے بلند آواز میں نعرے بلند کرتا کہ ہل نے مچادی۔"ہلچل ہلچل "(ہل اسوقت قومی اتحاد کا انتخابی نشان تھا) پھر باری باری قومی اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کے سربراہوں کے نام لیکر نعرے لگواتا جیسے مفتی (محمود) نے مچادی ،جواب میں سب لوگ بلند آواز میں کہتے ہلچل ہلچل۔چونکہ قومی اتحاد کے جلسوں میں زیادہ تر تقاریر مذہبی ہوتیں اس لئے مولوی ہلچل جب نعرہ لگواتا کہ "اسلام نے مچادی" تو پنڈال جذباتی ہوکر جواب دیتا کہ ہلچل ہلچل۔بعد میں ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد پاکستان قومی اتحاد کا شیرازہ بکھر گیا،1981ء میں لاہور تحریک استقلال کے فنانس سیکرٹری ایک صنعت کار میاں نواز شریف کو پنجاب کا وزیر خزانہ بنادیا گیا۔ پھر1985ء میں وہ پنجاب کے وزیر اعلی ہوگئے۔1990ء میں جب سیاستدانوں میں دولت تقسیم کرکے پیپلز پارٹی کے خلاف ایک سیاسی اتحاد"اسلامی جمہوری اتحاد"بنوایا گیاتو میاں نواز شریف نے عوامی جلسوں سے خطاب کرنا شروع کردیا۔ ایسا ہی جلسہ گوالمنڈی میں سننے کا اتفاق ہوا تو مولوی ہلچل دوبارہ نعرے لگوانے میں مصروف نظر آیا مگر اب کی بارہل کی بجائے" سائیکل" نے ہلچل مچارکھی تھی۔خود مولوی بھی اب جوانی کی حدوں سے نکل چکا تھا۔نعروں میں کوئی دم خم نظرنہ آیا بعد میں معلوم ہواکہ نواز شریف کی وزارت اعلیٰ میں اپنے بیٹے یادیگر کسی عزیز کو اچھی نوکری دلوانے کے علاوہ خاص مال کماکر اب دولت مند ہوچکا ہے،اسلئے اب نعروں میں وہ دم خم نہیں رہا۔یہ تو ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے والے دیوانوں اور فرزانوں کاکام ہوتا ہے ۔ مفت بر اور دیہاڑی باز کارکن تو اندر سے ہی مردہ ہوچکا ہوتا ہے،سچائی کی آواز کیسے نکلے۔اسی طرح کی ایک اور سوغات لاہور کے ادبی حلقوں میں دیکھنے میں آتی"مجاہد اردو"مولوی فضل الرحمان جس کا دعوی تھا کہ وہ ملک میں اردو زبان کو سرکاری زبان قرار دینے کیلئے واہگہ بارڈر پر جاکر جان تک دینے کیلئے تیار ہے۔مگر اردوزبان کے نفاذ کیلئے واہگہ بارڈر جانا اور پھر جان قربان کرنے کے عزم کی سمجھ توکبھی نہ آسکی،البتہ وہ ادبی حلقوں میں ایک شگوفے کے طور پر آتا اور ایک عدد تقریر ضرور کرتا۔ جو پتہ نہیں کہاں سے شروع ہوتی اور کہاں ختم ہوتی۔ اپنے تعارفی کارڈ پر مولوی لہولہان کی طرح لفظ مجاہد کو سر خ رنگ سے ظاہر کیا ہوتا ،جس سے خون کے قطرے ٹپک رہے ہوتے۔ لاہور میں ایک اور مولوی بھی اپنے کاروباری علاقے میں انوکھی شہرت رکھتا تھا۔تھانہ نولکھا کے ساتھ والی سٹرک جولنڈا بازار کوجاتی ہے ،وہاں سے ایک بغلی سٹرک پر"لوہے کا لنڈا"بھی بڑا مشہور ہے ۔ یہاں ملک بھر سے سٹیل انڈسٹری سے وابستہ لوگ لوہے کی تیار کردہ اشیاء اور کاٹھ کباڑ وغیرہ خریدنے کیلئے آتے ہیں۔ یہاں لوہا فروخت کرنے کی ایک دکان ہوا کرتی تھی "بدعت توڑ آئرن مرچنٹ"اس دکان کے مالک کا نام تو معلوم نہ ہوسکا ،البتہ یہ صاحب مولوی "بدعت توڑ"کے نام سے اپنے علاقے اور مسلکی حلقوں میں بڑے معروف تھے۔ ان کا ڈیل ڈول مضبوط بازو اور گردن بھی ایسی تھی کہ جیسے ابھی کسی چیز کو بدعت سمجھ کرپاش پاش کردینگے۔کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہ تھا نام سے ہی انکے مسلک کا ندازہ کیاجاسکتا ہے۔کسی مالی سیکنڈل کی بابت انکے بارے میں کبھی نہ سُنا۔لاہور میں ایک اور کردار تھے "لطیف بٹ خاکسار" ۔وہ مولوی تو نہ تھے مگر ہر سیاسی ومذہبی جلسے میں موجود ہوتے، ہمیشہ خاکساروں کی طرح کھدر کا لباس پہنے رکھتے۔ موچی دروازہ میں جب بھی کوئی جلسہ ہوتا تو جلسہ کے عین اس موقع پر جب جلسہ گاہ خوب بھر چکی ہوتی تو وہ سٹیج کے عقبی حصے سے کرسیاں پھلانگ کر مائیک پر آجاتے،انتظامیہ کی اجازت کے بغیر ہی حکومت وقت کے خلاف دوچار جذباتی الفاظ اداکرتے اور قمیض کی دائیں جیب سے پستول نکال کر دوچار ہوائی فائر کرکے مجمع میں ارتعاش پیدا کر دیتے۔ساتھ ہی جلسہ کے منتظمین کو وارننگ دیتے کہ "سودے بازی نہیںچلے گی"گویا جس جماعت نے جلسہ منعقد کیا ہوتا وہ حکومت کے ساتھ کوئی سودے بازی کر رہی ہوتی۔ اس طرح کا ڈرامہ کرکے وہ کوئی تقریرکرتے اور سٹیج سے روانہ ہوجاتے لطیف بٹ کا سارا دن مال روڈپر"شیزان" ریسٹورنٹ میں گزرتا۔ دہاڑی بازی اور مفت بری انکی لونڈی تھی۔جوانی ڈھل چکی تھی مگر آرزوئیں زندہ تھیں۔کاش سیاسی جماعتیں ذات برادری یا چمچہ گیری کی بُنیاد پر کارکنوں کو نوکریاں دینے کی بجائے انکی سیاست اور جمہوریت سے لگن کی بنیاد پر ان کا مستقبل سنوارنے کو ترجیح دیں۔
ایرانی صدر کا دورہ، واشنگٹن کے لیے دو ٹوک پیغام؟
Apr 24, 2024