بلاول کی خواہش پر آصف زرداری کی تنبیہ 

روز قیامت کہا جاتا ہے کہ کوئی ایک دوسرے کو پہچانے گا نہیں ، با پ بیٹے کو ، بیٹا باپ کو یا اس طرح تمام رشتہ دار سب کو اپنے اعمال کے نتائج کا انتظار ہوگا ۔ اسی طرح ہماری سیاست میں عام حالات میں اتحاد بنتے ہیں خاص طور حکومتوںکو گرانے کیلئے مگر جیسے ہی انتخابات کا بگل بجتا ہے سب ایک دوسرے کا ساتھ چھوڑدیتے ہیں اور اپنی اپنی کرسی کا خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ میرے ایک مرحوم دوست نے ایک کتاب بھی لکھی تھی جسکا نام ہی ”سیا ہ ست “رکھاتھا ۔ کرسی کے حصول کیلئے تمام ماضی کی گالم گلوچ، الزام تراشیاں بھول کر ہم نوالہ ہم پیالہ ہوجاتے ہیں، انتخاب کا بگل بجتے ہی ہم نوالہ لوگ ایک دوسرے کا نوالہ چھیننے کے درپے ہوجاتے ہیں ، جب انہیں یاد دلایا جائے کہ کوئی تو زبان کا پاس رکھیں کل آپ نے فلاں کیلئے کیا کہاتھا ؟ آج ساتھ بیٹھ گئے۔ مگریہ لوگ اسے جمہوریت اور سیاست کا نام دیتے ہیں ،دنیا بھر سے نظریاتی سیاست کا جنازہ اٹھ چکا ہے خاص طور پر پاکستان میں کسی کا کوئی نظریہ نہیں۔ صرف چار ٹانگوں والی کرسی ، اور ملکی ذرائع انکے نشانے پرہوتے ہیں۔ حال ہی میں پی پی پی کے بلاول بھٹو نے تو ایک نئی بحث شروع کرادی ہے کہ ”سیاسی بابے بمقابلہ نوجوان سیاست دان “چاہے بھٹو خاندان کے بابے اور نوجوان ہوں یا میاں خاندان کے بابے اور نوجوان۔ سیاست مورثی ہی رہے گی ۔ مگر سابق صدر اور چار پی پی والے آصف علی زرداری کو اپنے پسر بلاول کی بات دل کو لگ گئی اور انہوںنے ”موڈ “میںآکر ایک نئے انداز میں بلاول کی سوچ اور بیان کا آپریشن کردیا جس میں بلاول نے مشورہ دیا تھا کہ بابے گھر بیٹھیں، مدرسہ چلائیں، بلاول کے نزدیک اب نوجوانوں کا زمانہ ہے ۔ مگر اسطرح وہ یہ بھول گئے کہ زیادہ تر لوگ انکی جماعت کے فارغ ہوجائینگے اس نسخے کے تحت چونکہ وہ سیاست دان انکی ٹوکری میں ہیں جوایک وقت انکے نانا ، اور والدہ کے ساتھ کام کرتے رہے تھے ۔ مگر انکے اس بیان کا مقصد یہ لگتا ہے کہ وہ اپنے والد جو پاکستان کی سیاست کی تاریخ میں شطرنج کے ماہر ہیںاور سیاست کو شطرنج کے انداز میں کھیلتے ہیں ان سے مراد ہے اور وہ شائد انکے مشورے لینا نہیں چاہتے۔ اس لئے آصف زرداری کو کہنا پڑا کہ بلاول ابھی بچہ ہے اسے سیاست کا علم نہیں ، اب وہ اتنا بچہ بھی نہیں جتنا بلاول کے والد سمجھ بیٹھے ہیں۔بلاول کے اس بیان سے نوجوانوںمیں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہوگی۔نوجوانوںکو خوش کرنے کا ہنر انہوںنے تحریک انصاف سے مستعار لیا لگتا ہے ۔ بلاول نے ورکرز کنونیشن کے سے ابتدا ءکی اور پہلے ہین کنونیشن میںجوش خطابت وہ کچھ کہہ گئے جو والد محترم کو ناگوار لگا۔ اس سے پہلے کہ نوجوان انکے نزدیک جمع ہوںابو بلاول نے یہ اعلان کردیا کہ انتخابات میں ٹکٹس میںہی دونگا ۔ بلاول ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے غیر اعلانیہ طور پر دوبئی چلے گئے ، انہیں منانے کیلئے والد صاحب ، پھپھوسب دوبئی روانہ ہوگئے اور ناراضگی کا تاثرختم کرنے کیلئے سوشل میڈیا پر ایک گروپ فوٹو کا سہارہ لیا تمام خاندان نے ملکر ۔ یورپ سے فارغ تحصیل ہونے والے بلاول کو پاکستان کی سیاست عجیب لگتی ہوگی اسی لئے یاد پٹرتا ہے کہ وہ پہلے بھی سیاست سے بے زار ہوکر ملک سے چلے گئے تھے مگر یہ کیسے چلے گا وزیر اعظم کے امیدوار کو جگہ نہیںچھوڑنی چاہئے اگریہ ہی چلن رہے اور وزیر اعظم بن گئے اور والد صاحب کا کوئی مشورہ پسند نہ آیا تو مسئلہ بن جائے گا یا تو کسی بابے کو جیل میںڈالنا پڑے گا یا باہر جانا پڑے گا ۔ جلسہ ہو یا کنونشن، اجتماع بڑا اور شرکاء پرجوش ہوں تو لیڈر ترنگ میں آ جاتا ہے۔ بلاول بھی ایسے ہی جذبات گرماتے گرماتے خود بھی جذباتی ہونے لگے۔ اتنے جذباتی ہوئے کہ سیانے اور سینئر سیاستدانوں کو کبھی بوڑھے کبھی بابے اور کبھی عمررسیدہ سیاستدان کہہ کر ان کو سیاست سے کنارہ کشی کا مشورہ دینے لگے۔ یہ سب جوش میں نہیںکہا بلکہ سنانا تھابابا سیاست دانوں بشمول اپنے والد کو جبکہ والد تو کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے ایک موقع پر کہا تھا کہ وہ بلاول کو وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ بچے کو انہوں نے وزیر خارجہ بھی لگوا دیا تھا۔ انٹرویو میں ایک تو زرداری صاحب نے بلاول کو ناتجربہ کار کہا دوسرے یہ بھی کہہ دیاکہ وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ پارٹی کرے گی۔ یہ کہہ کرانہوںنے قصہ ہی مکا دیا۔ اب ضرورت ہے کہ لکیر پیٹنے کے بجائے اپنے تجربات سے اس ملک کی معیشت اور عزت بحال کرنے کی کوششیںکریں ورنہ پھر نوجوان سیاست دان ہی میدان میںآجائینگے جن کے ساتھ تاحال ماضی میں کچھ نہیں ہوا نہ ہی فی الحال انکا کوئی ”ماضی “ہے ۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ سابقہ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں گالیاںدی جاتی تھیں۔ وہ تو آج بھی انکا سوشل میڈیا اول فول بک رہا ہے اور ملک میں کم باہر سے زیادہ کررہا ہے۔ سپہ سلار عاصم منیر کا واضح دو ٹوک اعلان کہ کوئی ادارہ سیاسی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرے گا اس عزم سے ملک میں آئین کی بالادستی اور سیاسی و جمہوری استحکام کی مستقل ضمانت مہیا ہوسکے گی جس کے بغیر قومی ترقی و خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔چاہے کوئی بابا سیاست دان ہو یا نوجوان سیاست دان ۔جو بھی اس ملک کو معاشی دلدل سے نکالے گا عوام اسے ہی ہیرو تسلیم کرینگے۔

ای پیپر دی نیشن

 سکول میں پہلا دن ۔ دیدہ و دل

 ڈاکٹر ندا ایلی آج میری بیٹی کا سکول میں پہلا دن تھا ۔وہ ابھی بہت چھوٹی تھی ۔ مجھے سارا دن بہت پریشانی رہی ۔ پتہ نہیں اس نے ...