جشنِ میلادالنبیﷺ اور اتحادِ امتّ کے تقاضے

محسنِ انسانیت، سرورِ کائنات، خاتم النبینّ، رحمة للعالمین ،‘ آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادتِ باسعادت آج 29 ستمبر کو ملک بھر اور پوری مسلم دنیا میں سرشاری محبت و عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے ملی جوش و جذبے سے منایا جارہا ہے۔ مسلمانانِ عالم 12 ربیع الاول کا دن اپنے پاک نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت و عقیدت کے اظہار کیلئے عیدمیلاالنبی کی صورت میں مناتے ہیں اور اس دن اپنے اپنے انداز میں جشن منا کر رحمة للعالمین صلی للہ علیہ وسلم کے حضور سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ آج اسی مناسبت سے فرزندانِ توحید اور غلامان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ملک بھر میں محافل میلاد منعقد کرکے اور گلیوں‘ بازاروں‘ شاہراہوں‘ مساجد اور گھروں کو برقی قمقموں‘ سبز جھنڈوں‘ جھنڈیوں اور روضہ¿ رسول کے ماڈلز کے ساتھ سجا کر جشن ِمیلاالنبی منا رہے ہیں۔ آج ملک بھر میں عام تعطیل ہے اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کیلئے خصوصی اشاعتوں اور پروگراموں کا اہتمام کیا ہے جبکہ سرکاری و نجی سطح پر جشنِ میلادالنبی کی خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا جارہا ہے جن میں حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے کٹ مرنے کے جذبے کا اعادہ اور عقیدہ¿ ختم نبوت کو اجاگر کیا جائیگا۔ 
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے اس بار شانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو اجاگر کرنے اور تحفظِ ختم نبوت کیلئے خصوصی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی سربراہی میں حکومت تقدیس ختم نبوت کے جذبہ سے سرشار ہے اور رحمة للعالمیناتھارٹی کو فعال کیا ہے۔ اس اتھارٹی کا مقصد حضرت نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ¿ حسنہ کے مطابق زندگیاں گزارنے کی ترغیب دینا اور عقیدہ¿ ختم نبوت پر کوئی آنچ نہ آنے دینا ہے۔ گذشتہ ماہ جڑانوالہ میں قران پاک کی بے حرمتی کا واقعہ اور اس کے رد عمل میں مسیحیوں کی عبادت گاہوں اور آبادیوں پر ہونے والے حملے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے معاملہ میں بیرونِ ملک پاکستان کا تشخص خراب کرنے کی گھناونی سازش تھی جسے مسیحی برادری کے تعاون کے ساتھ ناکام بنایا گیا اور جڑانوالہ کے متاثرہ مسیحی خاندانوں کے نقصانات کے ازالہ کے لئے حکومتی سطح پر کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ نگران وزیراعظم، چیف جسٹس سپریم کورٹ اور آرمی چیف نے خود متاثرین سانحہ جڑانوالہ کی ڈھارس بندھائی اور ایسے کسی واقعہ کا اعادہ نہ ہونے دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔ گذشتہ روز اسلامی نظریہ کونسل نے بھی جڑانوالہ جیسے واقعات کے سدباب کے لئے حکومت سے خصوصی عدالتیں قائم کرنے کی سفارش کی ہے۔ 
یہ حقیقت ہے کہ ہنودو یہود و نصاریٰ کے گٹھ جوڑ پر مبنی الحادی قوتوں اور شاتمان رسول کی جانب سے تو رحمةللعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ کبھی گستاخانہ خاکوں اور کلمات کے ذریعے اور کبھی انکے نبی ¿ آخر الزمان ہونے کے بارے میں مسلمانوں کے عقیدہ¿ ختم نبوت کو چیلنج کرنیوالے ملعون قادیانیوں کی سرپرستی کرکے مسلم امہ کے مذہبی جذبات مجروح کئے جاتے ہیں۔ چار سال قبل عید میلادالنبی کے موقع پر بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا عاجلانہ فیصلہ صادر کیا جس کا مقصد شمع رسالت مآب کے پروانوں کے جذبات مجروح کرنا اور ان میں اشتعال پیدا کرکے مسلمانوں پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنے کے مذموم مقاصد کی تکمیل تھا اور ہندو انتہاءپسند مودی سرکار آج بھی اسی ایجنڈے پر گامزن ہے جبکہ تین سال قبل ولادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم والے مقدس مہینے ربیع الاول کے آغاز ہی میں فرانس کے صدر میکرون نے مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی ایک گھناﺅنی سازش کے تحت فرانسیسی جریدے میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کو سراہتے ہوئے یہ خاکے دیواروں پر آویزاں اور چسپاں کرنے کی بھی اجازت دے دی جس کیخلاف پوری مسلم برادری ہی نہیں سکھوں اور پاکستان کی دوسری اقلیتوں کے جذبات بھی مشتعل ہوئے اور فرانسیسی صدر کی اس جنونیت کیخلاف مسلم دنیا میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ اسلامیان پاکستان کی جانب سے میکرون کی اس حرکت کیخلاف سرکاری اور نجی سطح پر سخت ردعمل سامنے آیا۔ سینٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں نے مذمتی قراردادیں منظور کیں اور وزیراعظم نے مسلم سربراہان کو خط لکھ کر ان سے اسلامو فوبیا کیخلاف متحد ہونے کی اپیل کی اور عالمی قیادتوں اور اداروں سے مسلمانوں کو برابر کی عزت دینے کا تقاضا کیا۔ اسی طرح ترک صدر اردوان نے بھی فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے شانِ رسالت مآب میں الحادی قوتوں کی جانب سے ہونیوالی گستاخیوں کے توڑ کیلئے اتحاد امت پر زور دیا۔ رواں سال شاتمانِ رسول کی جانب سے فرانس، ڈنمارک اور دوسرے علاقوں میں اہانتِ قران و رسالت معاب کا اعادہ کیا گیا تو مسلم دنیا کی جانب سے اس پر سخت ردّعمل سامنے آیا اور جنرل اسمبلی کے موجودہ سالانہ اجلاس میں بھی مسلم دنیا جانب سے احتجاج ہوا۔ ڈنمارک نے تو اسلاموفوبیا میں ملوث افراد کو سزائے قید دینے کا قانون وضع کر لیا ہے۔ اتحادِ امت کا ٹھوس مظاہرہ ہو تو دنیا کے کسی بھی خطے میں ملعونوں کو اہانتِ قران و رسالت معاب کی جرا¿ت نہیں ہو گی۔
ذاتِ باری تعالیٰ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانیت کیلئے ہدایت کا آخری سرچشمہ بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت انسانی تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز اور ایک نئی جہت کا تعین تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تاریخ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اور بعد کے زمانوں کا تقابل کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد انسانیت کلیتاً ایک نئے دور میں داخل ہو گئی۔ ایک ایسا دور جس میں شعور، آگہی، تہذیب، کلچر اور اعلیٰ انسانی اقدار کے فروغ، قیام اور استحکام کے وہ نظائر ملتے ہیں جن کا نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل وجود نہ تھا بلکہ ان کا تصور بھی مفقود تھا۔ یہ سب ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ازلی اور ابدی فیضان تھا جو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بعثت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کے ذریعے عالم انسانیت میں جاری و ساری ہوا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے رہنمائی اور اخذ فیض کے جو مناہج بطور امت ہمیں اپنانے چاہئیں تھے وہ اپنائے نہ جا سکے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد جو ایک زمانہ فشاں ہوا اور خلافت راشدہ میں اسلامی مملکت کی حدود توسیع پذیر ہوئیں‘ بعد میں نہ صرف یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا بلکہ یہ حدود بھی محدود ہونے لگیں۔ مسلمانوں کا دنیا میں طوطی انکے اتحاد و یگانگت کے باعث بولتا تھا۔ امہ انتشار کا شکار ہوئی تو زوال شروع ہو گیا۔ پھر کہیں غرناطہ، کہیں بغداد اور کہیں ڈھاکہ فال ہونے لگے اور کہیں کشمیری‘ فلسطینی اور روہنگیا مسلمانوں پر طاغوتی طاقتوں کی افتاد ٹوٹنے لگی۔ آج اہل اسلام شدید مصائب و مشکلات سے دو چار ہیں۔ کس کو دوش دیا جائے‘ امتِ مسلمہ ہی میں نہ صرف نفاق و انتشار ہے بلکہ باہمی ناچاقیوں کی وجہ سے مسلمان مسلمان کا خون بہا رہا ہے۔ مسلم ممالک ایک دوسرے پر چڑھائی کرتے ہیں۔ آپس میں خونریز جنگیں زمانہ جاہلیت کی یاد تازہ کر رہی ہیں۔ 57 اسلامی ممالک او آئی سی کے پلیٹ فارم پر موجود تو ہیں مگر نہ صرف متحد نہیں بلکہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو بھی تیار نہیں اور فرقہ واریت کی لعنت نے مسلم برادرہڈ کے آفاقی جذبے کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ مسلمانوں کے اس انتشار اور دشمنی پر مبنی رویوں سے سامراج کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں آسانی ہو رہی ہے۔ وسائل اور افرادی قوت سے مسلم ممالک مالا مال ہیں۔ بہترین فوج کی بات کی جائے تو یہ اعزاز پاکستان کے پاس ہے جس کے فوجی دستوں نے اقوام متحدہ کے امن مشن میں کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں اور دنیا بھر میں اپنی مشاقی کی دھاک بٹھائی ہے۔ پاکستان ہی مسلم دنیا کی واحد ایٹمی قوت ہے۔ اسی طرح ترکی اور ایران کی افواج دنیا کی ماہر ترین افواج میں شمار ہوتی ہیں۔ مسلم افواج کے پاس جذبہ شہادت ان کا طرہ¿ امتیاز ہے مگر یہ سب کچھ ہوتے بھی مسلمان پستی کا شکار ہیں۔ مسئلہ فلسطین و کشمیر حل ہونے میں نہیں آرہے اور آج مسلم دنیا کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں بھی شدّومد کے ساتھ ہو رہی ہیں جبکہ ہندو انتہاءپسندوں کی نمائندہ آر ایس ایس کی ترجمان بھارت کی مودی سرکار نے مسلم دشمنی کی تمام حدیں عبور کرلی ہیں جو پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کی نیت سے مقبوضہ کشمیر کو مکمل طور پر ہڑپ کرچکی ہے اور آزاد کشمیر اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات پر بھی شب خون مارنے کی گھناﺅنی منصوبہ بندی کئے بیٹھی ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے مودی سرکار کے ایماءپر ہی بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا مذہبی منافرت پھیلانے والا فیصلہ صادر کیا اور بھارتی پارلیمنٹ نے اپنے آئین کی دفعات 370‘ اور 35اے کو حذف کرکے کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے مودی سرکار کے توسیع پسندانہ عزائم کا مکمل ساتھ دیا۔ 
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بانیانِ پاکستان اقبال و قائد نے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ خطے کے حصول کی جدوجہد اس خطے کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کیلئے کی تھی اور دو قومی نظریے کے تحت تشکیل پانے والے اس ملک خداداد کو محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور ان پر قران مجید کی شکل میں نازل کئے گئے احکام خداوندی کی روشنی میں ایک مثالی اسلامی‘ فلاحی‘ جمہوری معاشرہ کے قالب میں ڈھالنا ہی مقصود تھا۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کو ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھالنے کے نعرے لگائے مگر انکی گفتار اور کردار و عمل میں موجود واضح تضاد کے باعث انکے سیاسی مخالفین کو انکی بشری اور سیاسی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل گیا اور عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے انکی حکومت چلتی کی گئی جبکہ انکی حکومت کے پیدا کردہ غربت‘ مہنگائی کے گھمبیر مسائل نے ریاست مدینہ کا تصور پہلے ہی گہنا دیا تھا۔عوام کیلئے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل موجودہ نگران حکومت سے تو سنبھل ہی نہیں پائے جس نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرتے کرتے عوام کو مہنگائی کی مار مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور آج ملک کی اکثریتی آبادی خطِ غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ 
قیام پاکستان کے بعد قائداعظم نے دوٹوک الفاظ میں باور کرایا تھا کہ ہمارا دستور خدا وند کریم کی نازل کردہ الہامی کتاب قرآن مجید کی شکل میں پہلے سے موجود ہے جو مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسی بنیاد پر پاکستان کا نام بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار پایا۔ ختم نبوت پر ایمان شریعت کا بنیادی تقاضا ہے۔ بے شک غیرمسلم اقلیتوں کو آئین کے تحت تمام حقوق حاصل ہیں مگر خود کو مسلمان ظاہر کرکے کسی ملعون کو خدا کا نبی (نعوذباللہ) تسلیم کرنیوالوں کی مسلم معاشرے میں بطور مسلمان کبھی قبولیت نہیں ہو سکتی۔ اس فتنے کا دوبارہ سر اٹھانا ہمارے لئے لمحہ¿ فکریہ ہونا چاہیے۔ ہمیں بہرصورت اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھنا ہے اور حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی آنچ نہ آنے دینا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اس حوالے سے چودھری پرویز الٰہی نے بطور سپیکر اور بطور وزیراعلیٰ پنجاب دو اہم کارنامے سرانجام دیئے ہیں۔ بطور سپیکر انہوں نے پنجاب اسمبلی کی نئی بلڈنگ میں سپیکر چیئر کے اوپر ردقادیانیت کیلئے قرآن شریف کی آیت ”لانبی بعدی“ جلی الفاظ میں کندہ کرائی اور بطور وزیراعلیٰ انہوں نے اسمبلی میں ایک قانون منظور کراکے مسلمانوں کے نکاح فارم میں یہ الفاظ شامل کرائے کہ میرا ختم نبوت پر کامل ایمان ہے۔ خدا ہمیں اپنے دینِ کامل پر کاربند رہنے اور اپنے پیارے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت و تقدس پر کوئی ہلکی سی بھی آنچ نہ آنے دینے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے اور اپنے پیارے نبی کی امت ہونے کے ناطے ہم پر اپنی رحمتوں کی بارش برسائے رکھے۔ بقول علامہ اقبال، ذاتِ باری تعالیٰ کا یہی پیغام ہمارے لئے توشہ¿ آخرت ہے کہ:
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا‘ لوح و قلم تیرے ہیں

ای پیپر دی نیشن