مرحوم ایم ڈی طاہر حیات تھے تو عام آدمی اور پسے ہوئے بے وسیلہ طبقات کے لئے فراہمی انصاف کے معاملہ میں بہت بے چین اور بے قرار نظر آیا کرتے تھے۔ اپنی ذات کو انہوں نے انسانیت کی خدمت کے بے لوث ادارے کی شکل دی ہوئی تھی چنانچہ کوئی بھی پبلک ایشو اور قومی یا عوامی مسئلہ نظر آتا تو وہ دادرسی کے لئے رٹ درخواست تیار کرکے اگلے ہی روز ہائیکورٹ میں دائر کر دیتے۔ آئین کی دفعہ 199 کے تحت ہائیکورٹ میں حاصل دادرسی کی سہولت کو جتنا انہوں نے استعمال کیا شائد ہی خدمتِ انسانیت کا ماٹو رکھنے والی کوئی بھرپور این جی او بھی ایسا کارنامہ سرانجام دے پائی ہو۔ میری معلومات کے مطابق پانچ ہزار سے زائد رٹ درخواستیں ایم ڈی طاہر مرحوم ایڈووکیٹ نے \\\"Pro bono publico\\\"کے فلسفہ کی بنیاد پر مفاد عامہ کےلئے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں دائر کیں جن کی پیروی بھی انہوں نے خود کی اور اس پر اٹھنے والے تمام اخراجات بھی انہوں نے خود برداشت کئے۔ کبھی کبھار انہیں عدالتِ عالیہ سے لمبی جھاڑ بھی پڑ جاتی تھی۔ ایک دو مقدمات میں تو انہیں عدالت کا وقت ضائع کرنے کے جرم میں جرمانہ بھی ہو گیا اور ایک کیس میں ان پر توہین عدالت کی تعزیر بھی لگ گئی مگر جیل جانے سے پہلے ہی ان کی ضمانت پر رہائی عمل میں آ گئی۔
آج پیشہ وکالت میں ایم ڈی طاہر جیسے ایثار اور دکھی انسانیت کی خدمت کے جذبے کی کہیں جھلک بھی نظر نہیں آتی۔ بیان بازی کی حد تک تو کئی وکلاءحضرات متحرک ہوتے ہیں مگر ایم ڈی طاہر کی طرح اپنی معمول کی وکالت کے ساتھ ساتھ مفاد عامہ سے متعلق معاملات میں اپنے پلے سے خرچ کرکے دادرسی کے لئے عدالت سے رجوع کرنے والا وکیل ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا گویا
”مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے“
ہائیکورٹ بار کے احاطے میں موجود قدیم برگد کا درخت بھی ان کے مستقل ڈیرے کو ویران دیکھ کر اداس ہو جاتا ہو گا۔ مجھے آج ایم ڈی طاہر ایڈووکیٹ بے اختیار اور بے حساب یاد آئے۔ گذشتہ کافی دنوں سے فیصل آباد سے میرے دوستوں شیخ سلطان، میاں رفعت قادری، میاں افتخار اور نثار احمد نثار ایڈووکیٹ کا میرے ساتھ یہ تقاضہ جاری ہے کہ میں ہائیکورٹ فیصل آباد بنچ کی تشکیل کے سلسلہ میں ان کی طویل عرصہ سے جاری جدوجہد میں ان کا ساتھ دوں۔ انہیں پنجاب حکومت کے سینئر وزیر راجہ ریاض اور پنجاب حکومت میں مسلم لیگ (ن) کے وزیر غالباً چودھری عبدالغفور کی جانب سے یقین دلایا گیا ہے کہ ان کی جدوجہد اب کامیابی سے ہمکنار ہونے کو ہے کیونکہ پنجاب حکومت نے ہائیکورٹ فیصل آباد اور سرگودھا بنچوں کی تشکیل کی سمری منظور کرکے عملدرآمد کے لئے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو بھجوا دی ہوئی ہے۔ پھر بھلا چیف جسٹس ہائیکورٹ کے لئے اس سمری پر عملدرآمد کے لئے کیا امر مانع ہو سکتا ہے۔ اب تک عملدرآمد نہیں ہو پایا تو لازماً کوئی کمی کوتاہی رہ گئی ہو گی۔ کوئی قانونی نکتہ بیچ میں آڑے آ گیا ہو گا۔ اگر ایم ڈی طاہر مرحوم کے جذبہ والا کوئی وکیل فیصل آباد میں ہوتا تو اب تک انصاف کے ایوانوں میں طوفان کھڑا کر چکا ہوتا مگر فیصل آباد کے وکلا انصاف کی عملداری کا پرچم ہاتھ میں تھامے فیصل آباد ہائیکورٹ بنچ کی تشکیل کے معاملہ میں داد رسی کے لئے دوسروں پر تکیہ کئے بیٹھے ہیں۔ ایم ڈی طاہر زندہ ہوتے تو ہائیکورٹ میں داد رسی کی رونق لگا چکے ہوتے۔ ہائیکورٹ کے بنچوں کی تشکیل کے خلاف ان کی ایک رٹ درخواست پہلے ہی لاہور ہائیکورٹ میں زیر التوا تھی جو انہوں نے بنگلہ دیش ہائیکورٹ کے ایک فیصلہ کو بنیاد بنا کر دائر کی تھی۔
اب جبکہ فیصل آباد اور سرگودھا ہی نہیں، گوجرانوالہ میں بھی ہائیکورٹ کے بنچ کی تشکیل کے لئے آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں، ایم ڈی طاہر موجود ہوتے تو اس معاملہ کو طے بھی کرا چکے ہوتے۔ ہائیکورٹ کے بنچوں کی تشکیل کے معاملہ پر مجھے بھی مرحوم ایم ڈی طاہر کے موقف سے سو فیصد اتفاق ہے کیونکہ یہ ایک ایسا پنڈورا بکس ہے جو کھل گیا تو ہر گھر کے باہر عدالتِ عالیہ بیٹھی وہاں کے مکینوں کی دادرسی کر رہی ہو گی۔ گھر کی دہلیز پر انصاف کی فراہمی کے فلسفہ سے یہ مراد نہیں کہ ہر گھر کے دروازے کے باہر ہائیکورٹ بھی لگی ہوئی نظر آئے۔ کچھ اداروں کے تقدس کا بھی یہی تقاضہ ہے کہ انہیں عام کرکے بے توقیر نہ ہونے دیا جائے۔ اس لئے اگر ہمارے فیصل آباد کے دوستوں کو ہائیکورٹ کی سطح کے انصاف کی ضرورت ہے تو موٹر وے کے صدقے اب فیصل آباد سے لاہور تک کا سفر صرف ڈیڑھ گھنٹے کا رہ گیا ہے۔ یہاں آئیے اور ایڈووکیٹ ہائیکورٹ کہلائیے۔ اگر یہ اپیلٹ کورٹ پبلک کے پرزور اصرار پر آج فیصل آباد لائی اور سجائی جاتی ہے تو پھر سرگودھا اور گوجرانوالہ سے ہوتا ہوا پبلک کا پرزور اصرار ساہیوال، گجرات، جہلم، بہاولپور، لودھراں اور نہ جانے کس کس سٹیشن پر جا رکے گا۔ اس لئے پبلک کے اس پرزور اصرار کے پیچھے اپنی علاقائی نمبرداری تسلیم کرانے کے سوا اور کوئی جذبہ اور استدلال ایسا نظر نہیں آتا جس کی بنیاد پر ہر شہر میں ہائیکورٹ بنچ کی تشکیل کا تقاضہ کیا جا سکے۔ جبکہ یہ تقاضہ پورا ہونے کی صورت میں انصاف کا بس بول بولا ہی ہوتا رہے گا۔ عملداری عنقا ہو جائے گی۔ صوبائی وزیر رانا ثناءاللہ بھی تو آخر فیصل آباد ہی سے تعلق رکھتے ہیں اور چیف جسٹس پاکستان جناب افتخار محمد چودھری کے قریبی عزیزوں میں بھی شمار ہوتے ہیں پھر وہ ہائیکورٹ فیصل آباد کی تشکیل کے لئے کیوں اتنی تڑپ نہیں رکھتے جبکہ وہ قانون و انصاف کے شعبے کے انچارج بھی ہیں اور اگر اس معاملہ میں فیصل آباد کے دوستوں کے دل میں کوئی کسک موجود ہے تو ان میں سے کوئی ایک آدھ ایم ڈی طاہر ایڈووکیٹ بن کر دادرسی کے لئے ہائیکورٹ میں آ جائے۔ مگر معاف کیجئے یہ ایشو سڑکوں پر لایا جانے والا ہرگز نہیں ہے۔ آپ وہ بیج بوئیں جس کا پھل کاٹنا اور کھانا آسان ہو۔
آج پیشہ وکالت میں ایم ڈی طاہر جیسے ایثار اور دکھی انسانیت کی خدمت کے جذبے کی کہیں جھلک بھی نظر نہیں آتی۔ بیان بازی کی حد تک تو کئی وکلاءحضرات متحرک ہوتے ہیں مگر ایم ڈی طاہر کی طرح اپنی معمول کی وکالت کے ساتھ ساتھ مفاد عامہ سے متعلق معاملات میں اپنے پلے سے خرچ کرکے دادرسی کے لئے عدالت سے رجوع کرنے والا وکیل ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا گویا
”مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے“
ہائیکورٹ بار کے احاطے میں موجود قدیم برگد کا درخت بھی ان کے مستقل ڈیرے کو ویران دیکھ کر اداس ہو جاتا ہو گا۔ مجھے آج ایم ڈی طاہر ایڈووکیٹ بے اختیار اور بے حساب یاد آئے۔ گذشتہ کافی دنوں سے فیصل آباد سے میرے دوستوں شیخ سلطان، میاں رفعت قادری، میاں افتخار اور نثار احمد نثار ایڈووکیٹ کا میرے ساتھ یہ تقاضہ جاری ہے کہ میں ہائیکورٹ فیصل آباد بنچ کی تشکیل کے سلسلہ میں ان کی طویل عرصہ سے جاری جدوجہد میں ان کا ساتھ دوں۔ انہیں پنجاب حکومت کے سینئر وزیر راجہ ریاض اور پنجاب حکومت میں مسلم لیگ (ن) کے وزیر غالباً چودھری عبدالغفور کی جانب سے یقین دلایا گیا ہے کہ ان کی جدوجہد اب کامیابی سے ہمکنار ہونے کو ہے کیونکہ پنجاب حکومت نے ہائیکورٹ فیصل آباد اور سرگودھا بنچوں کی تشکیل کی سمری منظور کرکے عملدرآمد کے لئے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو بھجوا دی ہوئی ہے۔ پھر بھلا چیف جسٹس ہائیکورٹ کے لئے اس سمری پر عملدرآمد کے لئے کیا امر مانع ہو سکتا ہے۔ اب تک عملدرآمد نہیں ہو پایا تو لازماً کوئی کمی کوتاہی رہ گئی ہو گی۔ کوئی قانونی نکتہ بیچ میں آڑے آ گیا ہو گا۔ اگر ایم ڈی طاہر مرحوم کے جذبہ والا کوئی وکیل فیصل آباد میں ہوتا تو اب تک انصاف کے ایوانوں میں طوفان کھڑا کر چکا ہوتا مگر فیصل آباد کے وکلا انصاف کی عملداری کا پرچم ہاتھ میں تھامے فیصل آباد ہائیکورٹ بنچ کی تشکیل کے معاملہ میں داد رسی کے لئے دوسروں پر تکیہ کئے بیٹھے ہیں۔ ایم ڈی طاہر زندہ ہوتے تو ہائیکورٹ میں داد رسی کی رونق لگا چکے ہوتے۔ ہائیکورٹ کے بنچوں کی تشکیل کے خلاف ان کی ایک رٹ درخواست پہلے ہی لاہور ہائیکورٹ میں زیر التوا تھی جو انہوں نے بنگلہ دیش ہائیکورٹ کے ایک فیصلہ کو بنیاد بنا کر دائر کی تھی۔
اب جبکہ فیصل آباد اور سرگودھا ہی نہیں، گوجرانوالہ میں بھی ہائیکورٹ کے بنچ کی تشکیل کے لئے آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں، ایم ڈی طاہر موجود ہوتے تو اس معاملہ کو طے بھی کرا چکے ہوتے۔ ہائیکورٹ کے بنچوں کی تشکیل کے معاملہ پر مجھے بھی مرحوم ایم ڈی طاہر کے موقف سے سو فیصد اتفاق ہے کیونکہ یہ ایک ایسا پنڈورا بکس ہے جو کھل گیا تو ہر گھر کے باہر عدالتِ عالیہ بیٹھی وہاں کے مکینوں کی دادرسی کر رہی ہو گی۔ گھر کی دہلیز پر انصاف کی فراہمی کے فلسفہ سے یہ مراد نہیں کہ ہر گھر کے دروازے کے باہر ہائیکورٹ بھی لگی ہوئی نظر آئے۔ کچھ اداروں کے تقدس کا بھی یہی تقاضہ ہے کہ انہیں عام کرکے بے توقیر نہ ہونے دیا جائے۔ اس لئے اگر ہمارے فیصل آباد کے دوستوں کو ہائیکورٹ کی سطح کے انصاف کی ضرورت ہے تو موٹر وے کے صدقے اب فیصل آباد سے لاہور تک کا سفر صرف ڈیڑھ گھنٹے کا رہ گیا ہے۔ یہاں آئیے اور ایڈووکیٹ ہائیکورٹ کہلائیے۔ اگر یہ اپیلٹ کورٹ پبلک کے پرزور اصرار پر آج فیصل آباد لائی اور سجائی جاتی ہے تو پھر سرگودھا اور گوجرانوالہ سے ہوتا ہوا پبلک کا پرزور اصرار ساہیوال، گجرات، جہلم، بہاولپور، لودھراں اور نہ جانے کس کس سٹیشن پر جا رکے گا۔ اس لئے پبلک کے اس پرزور اصرار کے پیچھے اپنی علاقائی نمبرداری تسلیم کرانے کے سوا اور کوئی جذبہ اور استدلال ایسا نظر نہیں آتا جس کی بنیاد پر ہر شہر میں ہائیکورٹ بنچ کی تشکیل کا تقاضہ کیا جا سکے۔ جبکہ یہ تقاضہ پورا ہونے کی صورت میں انصاف کا بس بول بولا ہی ہوتا رہے گا۔ عملداری عنقا ہو جائے گی۔ صوبائی وزیر رانا ثناءاللہ بھی تو آخر فیصل آباد ہی سے تعلق رکھتے ہیں اور چیف جسٹس پاکستان جناب افتخار محمد چودھری کے قریبی عزیزوں میں بھی شمار ہوتے ہیں پھر وہ ہائیکورٹ فیصل آباد کی تشکیل کے لئے کیوں اتنی تڑپ نہیں رکھتے جبکہ وہ قانون و انصاف کے شعبے کے انچارج بھی ہیں اور اگر اس معاملہ میں فیصل آباد کے دوستوں کے دل میں کوئی کسک موجود ہے تو ان میں سے کوئی ایک آدھ ایم ڈی طاہر ایڈووکیٹ بن کر دادرسی کے لئے ہائیکورٹ میں آ جائے۔ مگر معاف کیجئے یہ ایشو سڑکوں پر لایا جانے والا ہرگز نہیں ہے۔ آپ وہ بیج بوئیں جس کا پھل کاٹنا اور کھانا آسان ہو۔