بجلی کے بھاری بل: عوام کو فوری ریلیف دیا جائے

بجلی کی قیمتیں بڑھنے کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں جو احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اس سے واضح طور پر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عوام اب اشرافیہ کی لوٹ کھسوٹ سے تنگ آچکے ہیں، لہٰذا وہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں۔ یہ ایک نہایت افسوس ناک اور قابل مذمت بات ہے کہ ہر جماعت کی سیاسی قیادت عوام کو خوش نما نعروں کے ذریعے بے وقوف بناتی ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ دو ہفتے پہلے تک حکومت کے مزے لینے والی پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور پاکستان پیپلز پارٹی کو اقتدار میں ہوتے ہوئے عوام کا ہرگز کوئی احساس نہیں تھا اور ان کی جانب سے ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے طرح طرح کے جواز پیش کیے جاتے تھے لیکن اب اقتدار کے ایوانوں سے نکلنے کے بعد ان جماعتوں کے رہنما کہیں تو اپنے کارکنوں کو بجلی کے بلوں کے خلاف ملک بھر میں ہونے والے عوامی احتجاج میں شرکت کی ہدایت کررہے ہیں اور کہیں صارفین کے لیے ریلیف کی حد بڑھانے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو اپروچ کرنے کے مطالبات کررہے ہیں۔ سولہ مہینے تک جب یہ لوگ حکومت میں تھے اس وقت ان کی کارکردگی نے پوری طرح واضح کردیا کہ انھیں عوام کا کتنا احساس ہے۔
بجلی کی کھپت کے حوالے سے ایک اہم معاملہ یہ ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق سرکاری ملازمین سالانہ 34 کروڑ یونٹ مفت بجلی استعمال کرتے ہیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گریڈ 17سے21 کے تقریباً سولہ ہزار ملازمین 70 لاکھ یونٹس ماہانہ استعمال کرتے ہیں۔ یہ انکشاف ہوا ہے کہ گریڈ 17 سے اوپر کے ملازمین کو مفت بجلی کی فراہم بند کر بھی دی جائے تو گریڈ 16 تک کے دیگر ملازمین 33 کروڑ یونٹ سالانہ مفت بجلی استعمال کرتے رہیں گے۔ گریڈ1 تا 16 تک مفت بجلی استعمال کرنے والے ملازمین کی تعدادتقریباً پونے دو لاکھ ہے جو سالانہ 10 ارب روپے کی مفت بجلی استعمال کرتے ہیں جبکہ گریڈ 17 تا 21 کے ملازمین سالانہ 1 ارب 25 کروڑکی بجلی مفت استعمال کر رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے ذریعے منظر عام پر آنے والے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے ملازمین کو مفت بجلی کی فراہمی بند کر دی جائے تو اس سے ماہانہ صرف 19کروڑ روپے بچت ہوگی جبکہ گریڈ 1سے 16 کے ملازمین ماہانہ 76کروڑ43لاکھ روپے کی مفت بجلی استعمال کرتے ہیں۔ اس صورتحال میں عوام کا یہ مطالبہ بالکل جائز ہے کہ صرف گریڈ 17اور اس سے اوپر کے ملازمین ہی نہیں بلکہ تمام ملازمین کو مفت بجلی فراہم کرنے کا سلسلہ فوری طور پر بند کیا جائے۔
اتوار کو نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی زیر نگرانی ہونے والے اعلیٰ سطح اجلاس میں آئندہ 48 گھنٹوں میں بجلی کے زائد بلوں میں کمی کے لیے ٹھوس اقدامات مرتب کرکے پیش کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اس موقع پر نگران وزیراعظم نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو بجلی چوری کی روک تھام کا روڈ میپ اور بجلی کے شعبے کی اصلاحات اور قلیل، وسط اور طویل مدتی پلان جلد از جلد پیش کرنے کی بھی ہدایت کی۔ اجلاس میں وزیراعظم کو جولائی کے بجلی کے بلوں میں اضافے پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ انوارالحق کاکڑ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جلد بازی میں کوئی ایسا اقدام نہیں کریں گے جس سے ملک کو نقصان پہنچے۔ ایسے اقدامات کریں گے جن سے ملکی خزانے پر اضافی بوجھ نہ ہو اور صارفین کو سہولت ملے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں کہ عام آدمی مشکل میں ہو اور افسر شاہی اور وزراء ان کے ٹیکس پر مفت بجلی استعمال کریں۔ اس دوران وزیراعظم نے متعلقہ وزارتوں اور اداروں سے مفت بجلی حاصل کرنے والے افسران اور اداروں کی مکمل تفصیل فراہم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ یہ اجلاس سوموار تک ملتوی کردیا گیا لیکن تادمِ تحریر اجلاس سے متعلق کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
ادھر، بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافہ اور بھاری ٹیکسز کے خلاف تیسرے روز بھی ملک کے مختلف شہروں میں تاجر برادری سمیت عام شہری احتجاج کرتے رہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں مہنگی بجلی کے خلاف احتجاج میں عوام بڑی تعداد میں شرکت کر رہے ہیں اور ارباب اختیار سے بجلی سستی کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھائے شہری حکومت کے خلاف نعرے بازی بھی کر رہے ہیں۔ توقعات سے بڑھ کر بجلی کے بل آنے پر ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج ہورہے ہیں جن میں یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ تمام اداروں، محکموں اور وزارتوں کے ملازمین اور افسران کو مفت بجلی کی فراہمی کا سلسلہ بند کیا جائے، 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو ریلیف دیا جائے، بجلی کے بلوں میں غیر ضروری ٹیکس فوری طور پر ختم کیے جائیں اور فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے سے گریز کیا جائے۔
اسی حوالے سے جماعت اسلامی نے ہفتہ 2 ستمبر کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ علاوہ ازیں، مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کے صدر محمد کاشف چودھری نے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران 29 اگست کو مہنگائی، بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافہ کے خلاف کراچی سے خیبر تک ملک گیر یوم احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ مہنگائی نے پاکستانی قوم اور تاجر برادری کو شدید ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ احتجاج کے باوجود حکمرانوں کے کانوں پر جوں نہ رینگی تو 2ستمبر کو ملک گیر پہیہ جام، شٹرڈائون کریں گے اور حکمرانوں کو مجبور کریں گے کہ وہ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافہ فوری واپس لیں اور مہنگائی کی چکی میں پسی ہوئی قوم کو ریلیف دینے کے لیے اقدامات کریں۔
یہ صورتحال ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہی ہے اور اس کی تمام تر ذمہ داری اشرافیہ پر ہے جو سیاسی قیادت سے گٹھ جوڑ کر کے اپنے لیے ہر طرح کی سہولیات اور مراعات کا راستہ نکال لیتی ہے اور عوام کے مسائل میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اب عوام آئی ایم ایف یا کسی بھی اور بین الاقوامی یا عالمی ادارے کی شرائط کا جواز سننے کو ہرگز تیار نہیں ہیں۔ نگران حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر عوام کے جائز مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں ریلیف فراہم کرے ورنہ حالات اس حد تک بگڑ سکتے ہیں کہ پھر وہ کسی کے قابو میں نہیں رہیں گے۔ سیاسی جماعتیں عوام کے ساتھ نہ بھی کھڑی ہوں تو اس وقت ملک بھر کے عوام اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے خود اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

مولانا قاضی شمس الدین

ڈاکٹر ضیاء الحق قمرآپ 1916ء مطابق 1334ھ کو کوٹ نجیب اللہ، ہری پور ہزارہ میں مولانا فیروز الدین کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق ایک ...