ہڈرز فیلڈ میں جشنِ عطا قاسمی
اسی ّ کا عشرہ ہڈرز فیلڈ کے اختر وحید کے لیے بے حد بہار آفرین تھا۔ ان کی ایشین آرٹز سوسائٹی کی سرگرمیاں اپنے جوبن پر تھیں اور ان کا ادبی ا ور ثقافتی مجلہ اپنی مثال آپ تھا۔دوسری طرف یہ عشرہ پاکستان کے ابھرتے ہوئے اور نوجوان عطا ء الحق قاسمی کے لیے بھی بہت پروقار ثابت ہوا ، وہ شاعر تھے ادیب تھے کالم نگار تھے اور ٹی وی کے لیے مقبول عام ٖڈرامے لکھنے کی شہرت پا چکے تھے۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ اختر وحید کو اپنے دیس میں عطا ء الحق قاسمی کی جولانیاں دکھائی نہ دیں اور وہ ان کے لیے شایان شان پذیرائی کا اہتمام نہ کریں ۔اختر وحید نے چمکتے دمکتے عطاقاسمی کے لیے جشن عطاکا اہتمام کیا ۔اور اس میں ان کے علاوہ جو دیگر مہمان تھے ان میں بھارت سے آنے والے جگن ناتھ آزاد ۔پاکستان سے حمایت علی شاعر ا، امجد اسلام امجد‘ ڈاکٹر انعام الحق جاوید جیسی شہرا آفاق ہستیاں شامل تھیں۔ہڈرز فیلڈ کا چھوٹا سا قصبہ ان مہان شخصیتوں کی روشنیوں سے جگمگا اٹھا ااور جشن عطا کی رونق بڑھانے کے لئے بریڈ فورڈ،گلاسگو،مانچسٹر،برمنگھم اور لندن تک سے لوگ کھینچے چلے آئے۔اختر وحید بتاتے ہیں کہ کچھ مہمانوں کو انہوں نے اپنے گھر ٹھہرایا اور کچھ مہمانوں کے لیے ایک خالی مکان تلاش کیا اور شاندار طریقے سے مہانوں کی پذیرائی کے لیے اسے آراستہ کیا۔جشن عطا قاسمی کی تقریب کے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض نوائے وقت کے کالم نگار طاہر جمیل نورانی نے ادا کیے۔نورانی صاحب کہتے ہیں کہ وہ ان بلند پایہ ہستیوں کی پوری اور جامع تحسین کرنے کے قابل نہیں تھے مگر جیسے تیسے انہوں نے اپنا فریضہ نبھایا اور خوب نبھایا۔تقریب میں عطا ء الحق قاسمی کو پھولوں کے ہاروں سے لاد دیا گیا۔ تمام مقررین نے ان کو دل کھول کرخراج تحسین پیش کیا ۔خراج تحسین کا سلسلہ ختم ہوا پھر مشاعرے کا دور چلا جس میں مہمان خصوصی قاسمی صاحب نے اپنا کلام پیش کیا اور خوب داد وصول کی ،باری آنے پر حمایت علی شاعر،جگن ناتھ آزاد ،امجد اسلام امجد اورڈاکٹر انعام الحق جاوید نے بھی اپنے کلام سے محفل کو لوٹ لیا ۔اس جشن کے اختتام پر کھانے کی میزیں سجیں اور لذت کام و دہن کے لیے ہر نوع کی ڈش شامل تھی ۔ایک طرف عطا ء الحق قاسمی پھولے نہیں سما رہے تھے۔دوسری طرف اختر وحید کی خوشیاں دیدنی تھیں تیسری طرف طاہر جمیل نورانی سبھی مہمانوں کے سامنے بچھا جا رہا تھا۔ان دنوں اس کی ابھی جوانی کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا ۔گزشتہ دنوں میں نے نورانی صاحب سے اس محفل کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا یہ سب کچھ ایک سہانے خواب کی مانند لگتا ہے ۔اس خواب کا سحر آج تک میری آنکھوں میں سمایا ہوا ہے۔عطا ء الحق قاسمی کے لیے یہ دورہ بہت یادگار ثابت ہوا انہیں ملکوں ملکوں سے بلاوے آرہے تھے اور اگلے ڈیڑھ عشرے تک وہ دنیا ئے ادب کے افق پر تابناک ستارہ بن کر چمکتے رہے ۔وہ ڈنمارک گئے،ناروے گئے‘ہالینڈ گئے،فرانس گئے امریکہ تو بار بار گئے۔اسی زمانے کا نوسٹیلجیا ان کے ناروے میں سفیر بننے کا باعث بنا ۔ پاکستان میں میاں نواز شریف کی حکومت تھی اور عطا ء الحق قاسمی پاکستانی شاعروں ،ادیبوں اور کالم نگاروں کے وفود دھرا دھڑ ناروے بلا رہے تھے ۔وہ تھائی لینڈ میں بھی پاکستانی کی سفارت کاری کرتے رہے اور انہوں نے اس ملک کو بھی اردو ادب اور پاکستانی ثقافت کا مرقع بنادیا۔
عطا قاسمی سے میری یادیں کالج کے دنوں سے وابستہ ہیں ۔میں گورنمنٹ کالج کے میگزین راوی کا ایڈیٹر تھا اور وہ اوریئنٹل کالج کے میگزین محور کے ادارتی فرائض انجام دیتے رہے تھے۔بین الکلیاتی مشاعروں میں بھی ہماری ملاقاتیں ہوتی رہیں میں نے ایم اے انگلش کرنے کے بعد اردو ڈائجسٹ سے صحافت کا آغاز کیا اور چند برس بعد میں نے کتابوں کی اشاعت کا بیرہ اٹھایا تو سب سے پہلے میں عطا ء الحق قاسمی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ شمع سینما کے بغلی سڑک پر بالائی منزل میں مقیم تھے میں نے ان کے کالموں کے مجموعے ،عطائیے کی اشاعت کے لیے معاہدہ کیا۔اس کے بعد ان کے کالموں کی ایک اور کتاب بھی شائع کی۔ اگرچہ یہ سارے کالم نوائے وقت میں چھپے ہوئے تھے مگر ان کی تازگی میں کوئی فرق نہیں پڑا تھا ۔قاسمی صاحب کے کالم طنز سے بھرپور ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو قاری کھلکھلا کر ہنسنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔میں نے ان کی دو کتابیں شائع کیں وہ بیسٹ سیلر ثابت ہوئیں اور ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوئیں اب وہ دیگر پبلشروں کی آنکھ کا تارہ بن گئے اور ان کی کتابیں دھڑا دھڑ چھپنے اور بکنے لگ گئیں ۔بہت کم لوگوں کو یادہوگا کہ عطا ء الحق قاسمی ایم اے او کالج میں تدریسی فرائض بھی سر انجام دیتے رہے ہیں میں ان سے ملنے وہاں بھی جاتا رہا ۔پروفیسرز روم میں ان کے اردگرد طالب علموں کا جھم گھٹا لگا رہتا ۔
عطا ء الحق قاسمی کی گفتگو میں لطیفوں کا تڑکا لگا ہوتا ہے وہ سانس روکے بغیر لطیفے پر لطیفہ بیان کرتے ہیں اور سننے والا خوشی سے دھمال ڈالتا ہے میں اس یادگار سفر کو نہیں بھولتا جو میں نے لاہور سے مری تک کیا یہ بھی اسی کے عشرے کے اوائل کی بات ہے بلکہ کوئی سال دو قبل کاواقعہ ہے۔میں نے اپنے پبلشنگ ہائوس میں رہتے ہوئے رابطوں کو بنانے کے لیے ایک بڑی گاڑی حاصل کی ،مجھے ڈرائیونگ نہں آتی تھی اس سے پہلے صرف موٹرسائیکل چلاتا رہا تھا۔جس روز میں نے یہ بڑی گاڑی حاصل کی اسی روز میں نے عطا ء الحق قاسمی،امجد اسلام امجد، گلزار وفا چودھری اور وحید رضا بھٹی کو اس میں بٹھایا اور جی ٹی روڈ سے مری کا رخ کیا میں نے دوستوں کو شروع میں ہی بتا دیا تھا کہ مجھے گاڑی کے پاوراسٹیئرنگ کا کنٹرول حاصل نہیں ہے اس لیے گاڑی ذرا مٹک مٹک کر چلے گی آپ نے گھبرانا نہیں ہے ۔لالہ موسی پہنچ کر میں نے انہیں بتایا کہ اب پاور اسٹیئرنگ کا کنٹرول میرے ہاتھ میں آگیا ہے۔پوٹھو ہار کی پیچ دار سڑک پر گاڑی کی رفتار ہوا سے باتیں کر رہی تھی ۔مگرگاڑی میں جملے بازی اور لطیفے بازی کا دور چل رہا تھا۔پنڈی کے قریب ٹرکوں کا ایک اڈہ تھا جہاں فراٹے بھرتی کار کے سامنے سے ایک کتا گزرا تو میں نے اس زور کی بریک لگائی کہ ٹائروں کی چیخیں بلند ہوئیں اور جب گاڑی رکی تو اس کا منہ واپس لاہور کی طرف تھا۔ ٹرک ڈرائیوروں نے ہماری کار کو گھر لیا وہ پوچھ رہے تھے کہ کسی کو کوئی زخم تو نہیں آیا اور ہم آگے سے ہنس رہے تھے ۔اسلام آباد میں ہم کچھ دیر کے لیے نیول ہیڈ کوارٹرگئے جہاں ریئر ایڈ مرل شفیق الرحمن کے ساتھ دجلہ کی اشاعت کے لیے معاہدہ طے پایا اور اس کے بعد جو مری کی چڑھائی کا سفر شروع ہوا تو اس کی یاد سے آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں،پہلی ہی چڑھائی پر مجھے محسوس ہوا کہ کار کی ہینڈ بریک کام نہیں کر رہی جس کی وجہ سے گیئر بدلنا ناممکن ہوگیا ،اس کا علاج یہ سوچاگیا کہ بائیں طرف بیٹھے ہوئے وحید رضا بھٹی نیچے اتریں گے اور ٹائر کے پیچھے ایک پتھر رکھیں گے جس سے گاڑی رک جائے گی اور میں گیئر بدل سکوں گا مری کے سارے راستے میں یہ ایکسر سائز جاری رہی اور جب منزل پر پہنچ کر میں نے گاڑی روکی تو اس کاایک پہیہ سیوریج کی نالی میں گر گیا ہم نے یہ سوچ کر گاڑی کو اسی حال میں چھوڑ دیا کہ چلیے اب اس گاڑی کو کوئی چوری تو نہیں کر سکے گا۔پچھلے چالیس پچاس سال کا سفر اس گاڑی کے سفر سے مختلف نہیں ہے مگر عطا ء الحق قاسمی کی پر بہار شخصیت نے سفر کی کوفت کا احساس ہی نہیں ہونے دیا ۔اختر وحید نے ہڈرز فیلڈ میں جشن عطائے قاسمی صاحب کی پذیرائی کا آغاز کیا تھا ۔آج ایک زمانہ عطا ء الحق قاسمی کی پذیرائی کے لیے بازو کھولے کھڑا ہے۔