اکثر کہا جاتا ہے کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے ، لیکن اب ایک اضافہ یہ ہوا ہے کہ سیاست میں سب کچھ جائز ہے مثلاًکوئی سیاسی اتحاد قائم کیا جا ئے یا کوئی معاہدہ کیا جا ئے اس کی پابندی ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ سیاست ہے۔ سیاستدان اور سیاسی جماعتیں اس لیئے اتحاد میں شامل ہوتی ہیں کہ ان کی طاقت بڑھ سکے۔ یوں تو آج تک ملک میں بے شمار سیاسی اور مذہبی اتحاد ہوئے اور ختم ہوئے ہیں۔ لیکن آج ایسے اتحاد کی بات کریں گے وہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے سندھ کے سیاستدانوں سے کیاگیا جس میں کچھ وعدے کیئے گئے۔
1997کے عام انتخابات سے پہلے جو نگران حکومت بنی تھی اس کا سربراہ غلام مصطفیٰ جتوئی کو بنا یا گیا تھا۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میان نواز شریف کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ الیکشن جیتنے کی صورت میں ہمارے وزیر اعظم جتوئی ہونگے۔ لیکن انتخابات جیتنے کے بعدمسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ لیکن پھر 1999میں ان کی منتخب حکومت ختم کردی گئی۔
اس کے بعد 2013کے انتخابات سے پہلے مسلم لیگ (ن) کی طرف سے سند ھ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے سندھ کی مختلف جماعتوں اور گروہوں کے سیاستدانوں سے رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔میاں نواز شریف نے پی پی مخالف سیاستدانوں بشمول قوم پرستوں کے اور ایم۔کیو۔ ایم کے رہنماو¿ں سے ملاقات کی اور ان کو اپنے سیاسی اتحاد میں شمولیت کی دعوت دی۔ اس بات چیت کے نتیجے میں سندھ کے مشہور اور پرانے سیاستدان ممتاز علی بھٹو ، لیاقت علی جتوئی اور پیپلز پارٹی چھوڑنے والے عبد الحکیم بلوچ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے اور انتخابات جیتنے کے بعد مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنی تو نیشنل پیپلز پارٹی کے غلام مرتضیٰ جتوئی اور مسلم لیگ (ن) کے پیر پگارہ نے بھی مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دینے کا اعلان کیا جس کے بعد این پی پی کے غلام مرتضیٰ جتوئی کو وفاقی وزیر صحت اور عبدالحکیم بلوچ کو ریلوے کا وزیر مملکت مقرر کیا گیا۔ لیکن کچھ عرصہ بعد سندھ سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزراء، غلام مرتضیٰ جتوئی اور عبدالحکیم بلوچ کی طرف سے یہ شکایات کی گئیں کہ ان کو سندھ کے معاملات میں بھی نظر انداز کیا جارہا ہے اورکابینہ کی اہم میٹنگس میں بھی نہیں بلایا جاتا اس طرح کی شکایات میڈیا کے ذریعے مسلسل آتی رہیں۔دوسری طرف ممتاز علی بھٹو اور لیاقت علی جتوئی بھی کھل کر اس طرح کی شکایات کرتے رہے کہ مرکزی حکومت انہیں مسلسل نظر انداز کرکے اپنے کئے ہوئے وعدوں کی خلاف ورزی کررہی ہے۔آخر کارعبدالحکیم بلوچ نے وزارت اور ایم۔این۔اے کی سیٹ سے استعفیٰ دے کر واپس پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی، لیاقت علی جتوئی بھی پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے ہیں۔البتہ ممتاز علی بھٹو ابھی خاموش ہیں۔وہ ہو سکتا ہے دوبارہ قوم پرست ا تحاد کو منظم کرنے کی کوشش کریں
اس سے ایک بات بہر حال ظاہر ہو گئی ہے کہ آجکل سیاست کسی اصول کے تحت نہیں بلکہ ایک کھیل کے طور پر کی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں ایک پرانے اور تجربیکار سیاستدان چوہدری شجاعت حسین کی کہی ہوئی ایک بات بہت دلچسپ ہے کہ "ہماری جماعت یعنی مسلم لیگ(ق)چھوڑ کر دوسری سیاسی جماعتوں میں شامل ہونے والے لوگ اب بھی ہمارے ہی ہیں اور انہیں ہم ہی نے بھیجا ہے اور وہ اپنا کام کرکے واپس آئیں گے۔
اس پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو ایک بات صاف نظر آرہی کہ اس وقت ملک میں سیاست میں قیادت کا فقدان ہے اور ملک کو اس وقت ایک ایسے مدبر سیاستدان کی ضرورت ہے جو عوام کی صحیح رخ میں رہنمائی کرسکے اور ملک کو سیاسی اور معاشی بحران سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کرے۔