ایٹمی قوت پاکستان، مفلوک اْلحال عوام، گھاس کھائیے

 معزز قارئین! ماشاء اللہ !۔ آج ہم سب (اہل ِ پاکستان) اور بیرون ملک آباد ’’فرزندان و دْخترانِ پاکستان‘‘ وطن عزیز کے ایٹمی تجربے کی 25 ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ ہمیں ایٹمی تجربہ اِس لئے کرنا پڑا کہ اِس سے قبل ہمارا پڑوسی (ازلی دشمن) بھارت فروری 1974ء  میں پہلی بار اور 11 مئی 1998ء کو دوسری بار ایٹمی تجربہ کر کے ’’ایٹمی قوت ‘‘ بن چکا تھا لیکن ، اْس سے پہلے 1979ء میں برطانیہ کے نشریاتی ادارے "B.B.C" نے ٹیلی وڑن پر ایک دستاویزی فلم میں (تکلیف کا اظہار کرتے ہْوئے) کہا تھا کہ ’’ پاکستان اِسلامی بم بنا رہا ہے ‘‘۔ 
اِس سے پہلے امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کے پاس ایٹم بم تھے لیکن،  "B.B.C" سمیت کسی بھی غیر ملکی نشریاتی ادارے نے اْنہیں ’’ عیسائی بم‘‘ قرار نہیں دِیا تھا اور نہ ہی سوویت یونین اور عوامی جمہوریہ چین کے بموں کو ’’ کمیونسٹ بم‘‘ کہا تھا۔ غیر اعلانیہ طور پر اسرائیل بھی ایٹم بم بنا چکا تھا لیکن، اْس کے بم کو بھی ’’ یہودی بم ‘‘ نہیں کہا گیا تھا اور نہ ہی بھارتی بم کو ’’ ہندو بم ‘‘ کانام دِیا گیا۔  فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے دَور میں وزیر خارجہ پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے "The Guardian" کے دولتِ مشترکہ کے خصوصی نمائندے مسٹر پیٹر کولکے کو انٹرویو دیا جس کی اِس رپورٹ کو دْنیا بھر کے اخبارات میں خاص اہمیت دِی گئی تھی جس، میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ’’ اگر عوام کو گھاس بھی کھانا پڑی تو، بھی ہم ( اہل پاکستان) ایٹم بم ضرور بنائیں گے!‘‘۔ 
معزز قارئین !۔ اِس پر میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست ‘‘ نے ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے موقف  کے حق میں ایک نظم لکھی تھی ، جس کا عنوان تھا۔’’کھانا پڑے گا، ورنہ زہر ، گھاس کھائِیے! ‘‘۔ اس نظم کے صرف پانچ شعر پیش کر رہا ہوں…
’’ سب ہوگیا ہے، زیر و زبر، گھاس کھائِیے!
اربابِ ذوق و علم و ہْنر، گھاس کھائِیے!
روٹی نہیں ، تو بْھوک کا، کیسے علاج ہو ؟
کھائیں گے، کیسے لعل و گہر، گھاس کھائِیے !
جنگل میں ، یوں تو اور، جڑی بوٹیاں، بھی ہیں!
اہلِ وطن کے ساتھ، مگر ، گھاس کھائِیے!
جب تک ، نجات نہ مِلے، غمِ زْوز گار سے!
بہتر یہی ہے، شام و سحر، گھاس کھائِیے!
اِک بار، گھاس کھانے سے، گر بْھوک ، نہ مِٹے
اے یارِ غار، بارِ دِگر، گھاس کھائِیے
’’جنابِ مجید نظامی اور ایٹم بم ! ‘‘
معزز قارئین !۔ 28 مئی 2013ء کو ’’ یوم تکبیر ‘‘ کے موقع پر ’’ ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان ‘‘ لاہور میں ’’ نظریہ پاکستان ٹرسٹ‘‘ اور ’’ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ کے مشترکہ اجلاس کے صدر کی حیثیت سے ’’ مفسرِنظریہ پاکستان‘‘ جنابِ مجید نظامی نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’’ میاں نواز شریف کو اْن کی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور میں عالمی قوتّوں کی طرف سے ’’ ایٹمی دھماکا ‘‘ کرنے کی صورت میں دھمکیاں دِی جا رہی تھیں اور میڈیا پر یہ خبریں بھی شائع ہو رہی تھیں کہ ’’ دھماکا نہ کرنے پر وزیراعظم نواز شریف کو ہزاروں ملین ڈالرز کی رشوت بھی پیش کی جا رہی تھی ، پھر وزیراعظم صاحب ، مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں سے ایٹمی دھماکا کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں مشورے کر رہے تھے۔ جب وہ مجھے ، اسلام آباد میں قومی اخبارات کے ایڈیٹرز اور سینئر صحافیوں کے اجلاس میں ،گو ،مگو ،کی پوزیشن میں نظر آئے تو مَیں نے اْن سے کہا تھا کہ ’’وزیراعظم صاحب! آپ ایٹمی دھماکہ ضرور کردیں ، ورنہ قوم آپ کا دھماکا کر دے گی۔ مَیں آپ کا دھماکا کر دوں گا ! ‘‘۔ جنابِ مجید نظامی نے پھر کہا کہ ’’ چند دِن بعد وزیراعظم میاں نواز شریف نے چاغی (بلوچستان) کے پہاڑسے مجھے ٹیلی فون پر بتایا کہ ’’ محترم مجید نظامی? صاحب !۔ مَیں نے ایٹمی دھماکا کر کے پاکستان کو نا قابلِ تسخیر بنا دِیا ہے۔ مبارک ہو!‘‘۔ پھر مَیں نے بھی وزیراعظم صاحب کو مبارک باد دِی۔ 
’’ معاشی دھماکا ! ‘‘
 28 مئی 2013ء کو ’’ یوم تکبیر ‘‘ پر وزیراعظم میاں نواز شریف لاہور میں ’’ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان‘‘ میں جنابِ مجید نظامی کی صدارت میں منعقدہ ’’تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ اور ’’ نظریہ پاکستان ٹرسٹ ‘‘ کے مشترکہ اجلاس میں ، وزیراعظم میاں نواز شریف مہمانِ خصوصی تھے ، جب اْنہوں نے اعلان کِیا کہ’’ اب مَیں مفلوک اْلحال عوام کے دْکھ دور کرنے کیلئے ’’ معاشی دھماکا ‘‘ کروں گا اور ہر گھر میں روشنیوں کے چراغ جلیں گے ! ‘‘۔معزز قارئین !۔ مَیں نے 30مئی 2013ء کو ’’ نوائے وقت ‘‘ میں ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کے صرف یہ دو شعر شائع کئے تھے …
’’ روٹی ، کپڑا بھی ہو ، بسیرا بھی!
 ٹْوٹے ، دہشت گروں کا ، گھیرا بھی!
 دونوں ہی ہیں ، ہماری ترجِیحات!
 دور غْربت بھی ہو ، اندھیرا بھی! ‘‘
’’روٹی ، کپڑا اور مکان ! ‘‘ 
معزز قارئین ! صدر سکندر مرزا کی مارشل لائی کابینہ ، پھر صدر جنرل محمد ایوب خان کی مارشل لائی کابینہ میں خدمات انجام دینے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے 30 نومبر 1967ء کو اپنی چیئرمین شپ میں ’’ پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ بنائی تو، بھوکے ،ننگے اور بے گھر عوام کیلئے اْن کا نعرہ تھا۔ ’’ روٹی، کپڑا اور مکان!‘‘ لیکن، ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے، دو بار وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے باوجود اور اْن کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو اور اْن کے مجازی خْدا ، آصف علی زرداری نے صدرِ پاکستان کی حیثیت سے بھی مفلوک اْلحال عوام کیلئے کچھ نہیں کِیا۔ اْنکے ادوار میں بھوکے ، ننگے اور بے گھر عوام ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہائوس کی طرف مْنہ کر کے یہ آوازے کستے تھے کہ …
روٹی، کپڑا بھی دے ، مکان بھی دے !
اور ہمیں ، جان کی امان بھی دے !
’’ آنجہانی سوویت یونین !‘‘
معزز قارئین ! فی الحقیقت ’’ پاکستان میں آمریت اور جمہوریت میں ، کسی بھی حکمران نے غریب غْرباء کیلئے معاشی دھماکا نہیں کِیا؟ ایٹمی قوت "Superpower"۔  سوویت یونین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اْسکے عہدِ زوال میں چشم فلک نے دیکھا کہ ’’ سوویت یونین کی مختلف "States" (ریاستوں) کی بیکریوں کے باہرہاتھوں میں "Roubles" لئے خریداروں کی لمبی لمبی قطاریں تھیں لیکن ، بیکریوں میں اشیائے خورو نوش نہیں تھیں لیکن ، ہمارے پیارے پاکستان میں تو ، غربت کی لکیر سے نیچے 60 فی صد عوام کے پاس  قوّتِ خرید ہی نہیں ہے۔

ای پیپر دی نیشن