بینک آف پنجاب سکینڈل : سپریم کورٹ نے نادہندگان‘ قرضے ری شیڈول کے معاہدوں کی فہرست طلب کر لی
بینک آف پنجاب سکینڈل : سپریم کورٹ نے نادہندگان‘ قرضے ری شیڈول کے معاہدوں کی فہرست طلب کر لی
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) بنک آف پنجاب سکینڈل کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے نادہندگان اور قرضے ری شیڈول کرانے والے افراد سے متعلق معاہدوں کی فہرست طلب کر لی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر بنک نے سمجھوتے کرنے ہیں تو عدالت اور نیب کی کارروائی کا کےا فائدہ ؟ وقت ضائع اور عدالت کی اتھارٹی کا غلط استعمال کےا گےا۔ مزید مہلت نہیں دی جاسکتی اب کیس کا فیصلہ ہوگا ۔بنک کے وکیل انوار منصورخان کا کہناتھا کہ بنک نے 31.5 بلین روپے ریکور کئے۔ 38.5 بلین روپے کے قرضے ری شیڈول کئے بنک 2008 میں 10 بلین روپے نقصان میں تھا جبکہ اب 11.63 بلین روپے فائدہ میں جا رہا ہے۔ نیب کے پاس ریفرنس کیلئے 30 شکایات جبکہ سٹیٹ بینک کو 66 شکایات بھیجی گئیں۔ 2007ءمیں بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی 129 میٹنگز ہوئیں جس میں پانچ ڈائریکٹروں سلمان صادق، ہمیش خان، قیصر ذوالفقار، سلمان اسلم بٹ او رندیم عامر نے شرکت کی۔ آفتاب سلطان کمشن کی رپورٹ سے پہلے بینک نے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا تھا۔ کیس کو چھ ماہ زیرالتوا رکھا جائے تاکہ مزید ریکوریاں کی جا سکیں۔ بینک نے صرف حارث سٹیل کے معاملے پر عدالت سے رجوع کیا تھا۔ چیف چسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی تو بنک آف پنجاب کے صدر نعیم الدین خان اوروکیل انور منصور خان پیش ہوئے بنک کے وکیل نے عدالت کو بتاےا کہ بنک کے صدر نے قرضوں کی واپسی کیلئے اقدامات کئے ہیں، حارث گروپ نے بنک کو بھاری نقصان پہنچایا عدالت کی مداخلت پر پنجاب بنک ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آفتاب سلطان کمیشن رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داروں کے خلاف کیا کاروائی کی گئی کمیشن کے نامزد لوگوں سے بنک سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ جو چیز غیر قانونی تھی اسے نئے معاہدوں کے تحت قانونی کر دیا گےا ۔ بنک کے وکیل نے بتایاکہ 38 ارب میں سے 5 ارب کی رقم ڈائریکٹروں نے بطور قرض حاصل کی جبکہ باقی رقم سائلین کو دی گئی انہوں نے رقم کی وصولی کیلئے عدالت سے چھ ماہ کی مہلت طلب کی جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نہ صرف عدالت کا وقت ضائع کیا گیا بلکہ اس کیس میں عدالت کو استعمال بھی کیا گیا۔ بینک کے وکیل کا کہنا تھا کہ انہوں نے عدالتی حدود کا غلط استعمال نہیں کیا۔ آفتاب سلطان کمشن سے قبل ہی بینک معاملے پر کارروائی کا آغاز شروع کر چکا تھا۔ کمشن کی رپورٹ نومبر 2010ءمیں آئی۔ جبکہ بینک اس سے پہلے سمجھوتہ کر چکا تھا۔ بینک صرف حارث سٹیل مل کیس میں عدالت آیا تھا، باقی معاملات عدالت نے خود ہی آفتاب سلطان کمشن کی رپورٹ کے بعد اٹھائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کیس واپس لینا چاہتے ہیں تو ہم حکم دے دیتے ہیں۔ بینک صرف اپنے سابق ڈائریکٹروں کو بچانے کیلئے کر رہا ہے۔ وکیل نے کہا کہ ہم کیس واپس لینا نہیں چاہتے۔ عدالت کے استفسار پر انور منصور نے بتایا کہ نیب کے پاس بینک کے 30 ریفرنس موجود ہیں۔ 66 شکایات سٹیٹ بینک کو بھجوائی جا چکی ہیں۔ عدالت کے پوچھنے پر وکیل نے بتایا کہ خرم افتخار اور فرید مغیث کے خلاف نیب میں ریفرنس موجود ہیں۔ دونوں افراد نے اپنے قرضے کی رقم کی کچھ ادائیگی بینک کو کی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر بنک نے سمجھوتے کرنے ہیں تو عدالت اور نیب کی کاروائی کا کےا فائدہ ؟ اب کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوگی۔ کیس کا فیصلہ دیں گے کیس کی سماعت آج تک ملتوی کردی گئی۔
بینک آف پنجاب کیس