چلو بھر پانی
سبز سفید مہکتے قومی پرچم پر چمکتے چاند ستارے میں لپٹا ،کپتان محمد طحہ خان کا روشن چہرہ ماں دھرتی کی گود میں ابدی نیند سو گیا چند روز پہلے وہ جب چھٹیاں گزارنے اپنے آبائی گائوں بنڈی تونسہ ڈیرہ غازیخان آیا تو مرغابی کے شکار کی غرض سے دریائے سندھ میں اترا اور پھر دو روز کیلئے سرد پانی میں کہیں چھپا رہا۔ تلاش کیا تو وہ جاگنے پر آمادہ نہ ہوا ۔ فوجی سلامی اور والدین کی دعائوں کے ساتھ مکمل آرام کیلئے خوشبودار مٹی کے محل میں جا بسا ۔ ایک جواں عنوان جسے طویل کہانی تحریر کرنا تھی محض پانی کے ساتھ پانی ہو کر بہہ گیا۔ اس جیسی بے شمار ،بے وقت موت کی کہانیاں اکثر کہتی ہیں کہ
ان آنکھوں کا ہنسنا بھی کیا
جن آنکھوں میں پانی نہ ہو
وہ جوانی ، جوانی نہیں
جس میں کوئی کہانی نہ ہو
کہانی یہ ہے کہ شرم و حیا والے خشک دریائوں میں ڈوب جاتے ہیں اور عاری ، بے حیائی اوربے شرمی کے وسیع گہرے سمندروں میں بھی غرق نہیں ہوتے ۔ زندگی کی کہانی ہر لمحہ نیا رخ اختیار کرتی ہے ۔ ابھی ہم کپتان طحہ کی عجلت بھری جوانی کے حوالے سے باتیں کرتے ہوئے واپس آ رہے تھے کہ ہمارے عہد ساز دیرینہ ساتھی جناب عطا بلوچ نے فون کر کے چائے کی دعو ت صادر فرمائی ان کی "صادری" ہر بار دلچسپ ہوتی ہے اس بار ایک خوش انداز استاد شاعر شریف اشرف سے ملاقات کی صورت خوش کن ہو گئی کہ احباب نے انہیں "سندر ہاتھ سنہری زلفیں "غزل سنانے کی فرمائش کی تو وہ اپنی نام نہاد پیرانہ سالی کے باوجود پر جوان لہجے میں کلام سنانے پر تیار ہو ئے ۔ یوں بلوچ کی ہیرو شرقی سے ہیرو غربی تک بلکہ ڈیرہ واپسی تک کا سفر سندر ہاتھ سنہری زلفوں کے سائے ، سائے جوان ، جوان رہا ۔۔۔۔۔
شام کے سائے ڈھلنے سے پہلے ڈیرہ پہنچے تو چند احباب کو منتظر پایا ۔ نوجوان لکھاری، سوانح حیات شہید سید احمد سلطان المعروف پیر لکھ داتالعلاں والاسخی سرورؒ صاحب کے مصنف غلام مصطفی محبوب سے بیٹھک اور کھیلوں کے ماہر عمران طور سے ملنا اچھا لگا جو بتاتے رہے کہ گزشتہ ہفتے کے دوران مختلف کھیلوں کے مقابلے عزم و ہمت سے بھرے ہوئے تھے۔ ساتھ ، ساتھ خبریں آ رہی تھیں کہ قصور کی معصوم زینب کے بے غیر ت قاتل عمران نے اعتراف گناہ کر لیا ہے۔ اس بے ننگ و نام ، ذلیل ترین انسان کو، کوئی بے حیا شیطان صفت پیر فون پر درندگی کا اشارہ دیتا ،۔ وہ جنونی ہو کر گلاب چہرو ں کو مسخ کر دیتا۔ قاتل گرفتار ہونے پر سینیٹر رحمن ملک نے اسے سرعام پھانسی دینے کی تجویز دی جس پر بے رحم معاشرے کے نمائندگان نے اعتراض داغ دیا حالانکہ ہونا تو یہ چاہیئے کہ ایسے انسان دشمن کتوں کو، کتوں سے بھی بدتر موت دی جانی چاہیئے اور انہیں نشان عبرت کے طور پر اس وقت تک دار سے نہ اتارا جائے جب تک گدھ او رکوے اس کتے کی لاش کو بوٹی ،بوٹی نہ کردیں بلکہ اس ذلیل ترین کا ڈھانچہ مدتوں لٹکارہے ایسی چند مثالیں اگرپیدا کر دی گئیں تو درندگی کے جہنم میں جلنے والا معاشرہ ، آسودگی و تحفظ کی جنت میں بدل جائے گا ۔ یہ کام اکیلے عوام نہیں عوامی نمائندوں کو بھی مل کر کرنا چاہیئے۔ اقتدار کی باریاں لینے کیلئے بے چین اشرافیہ کو چین پانے کیلئے خدمت کرنا ہو گی اس دکھی ،مظلوم اور بے آسراعوام کو جنہیں ہر بار جمہوریت کے نام پر دھوکہ دیاجاتاہے ۔ آؤسب مل کر ایسا پاکستان تعمیر کریں جس میں کسی زینب کو عمران جیسے درندہ سے واسطہ نہ ہو ۔ شاعر تو کہتا تھا کہ
سوال کرتے ہیںلمحے،جواب دہ ہیں ہم لوگ
نئی سحر کا نیا آفتاب ہیں ہم لوگ
بے چاری قوم پچھلے 70سال سے ان لمحوں کو ترس رہی ہے کہ ان کے عذاب بھرے لمحوں کے حساب کا کوئی جواب دے او ریہ جو نئی سحر ، نیا پاکستان ، تبدیلی ، انقلاب ، انصاف اور تحریک کے ڈونگر ے برسائے جا رہے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہے جو مثل آفتاب باکردار ہو ، نئی سحر کا خواب عذاب بن چکا ہے جس نے منتظر آنکھوں کو پتھر بنا دیا ہے ۔ وقت کے سمندر میں موجود بے حساب پانی میں سے محض چلو بھر پانی اشرافیہ کے کام آ جائے اور وہ اس میں علامتی
طو ر پر ڈوب کر اپنے اعمال کا کفارہ ادا کریں ۔ پھر نئی سحر ، نئے آفتاب کی بامقصد ، باعمل بات کو دھرائیں۔ ورنہ ۔۔۔۔