عارف علوی پر مقدمات کی باتیں اور مولانا فضل الرحمن کی برہمی!!!!

صدر مملکت بارے ہمیشہ لکھا ہے کہ وہ مخصوص سیاسی جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وہ اپنے عہدے سے انصاف نہیں کرتے، ان کے لیے تمام سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادت برابر ہونی چاہیں لیکن وہ یہ کام نہیں کرتے بلکہ ہر اہم موقع پر وہ ملک کے صدر بننے کے بجائے پاکستان تحریک انصاف کے کارکن بنے نظر آتے ہیں۔ جب سے وہ اس منصب پر ہیں اور بالخصوص جب سے ملک میں سیاسی استحکام ہے، صدر پاکستان کے دفتر میں کوئی بھی آئینی و قانونی کام جاتا ہے وہ اسے ملک کے صدر کے بجائے ایک سیاسی جماعت کے کارکن کی حیثیت سے دیکھتے ہیں اور ویسے ہی فیصلے کرتے ہیں جس سے واضح طور پر یہ نظر آتا ہے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے لیے آئین و قانون کے بجائے اپنی سیاسی جماعت کا بیانیہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ وہ اپنی جماعت کی قیادت کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان دنوں بھی وہ اسی سیاسی سوچ کے تحت کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ عام انتخابات کا انعقاد ہو چکا ہے اور صدر مملکت کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلانا ہے لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے قومی اسمبلی اجلاس بلانے کی سمری مسترد کر کے واپس بھجوا دی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے موقف اختیارکیا ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے سے پہلے خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کو مکمل کیا جائے۔ صدر مملکت یہ سب کچھ ان حالات میں کر رہے ہیں کہ جب وہ یہ جانتے بھی ہیں کہ اگر وہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی سمری اپنے دفتر میں روکے رکھیں یا پھر وہ تحفظات کا اظہار کریں یا اختلافی نوٹ لکھیں یا پھر سمری مسترد کر کے واپس بھیج دیں قومی اسمبلی کا اجلاس بلا ہی لیا جائیگا ان حالات میں صدر مملکت ایسے فیصلوں سے کسے خوش کر رہے ہیں۔ ماضی میں ان کی طرف سے ایسے معاملات میں کیے گئے فیصلوں میں آئین پر عمل نظر نہیں آتا۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے قومی اسمبلی کا اجلاس نہ بلانے کے معاملے پر جو موقف اختیار کیا ہے اس حوالے سے نگران وفاقی حکومت نے جو مؤقف اختیار کیا ہے اس کے مطابق آرٹیکل 91 کی دفعہ 2 کے تحت 21 دن تک اجلاس بلانا لازمی ہے اور اگر صدر مملکت آئین کے اس آرٹیکل کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں بلاتے تب بھی انتیس فروری کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہر صورت ہو جائے گا۔ وفاقی حکومت کے مطابق ان حالات میں انتیس فروری کو ہونے والا اجلاس آئین کے عین مطابق ہو گا۔ اب اس مشق کا کس کو فائدہ ہونا ہے، صدر مملکت نے مختلف وقتوں میں سیاسی عدم استحکام کو کم یا ختم کرنے کا موقع ملا انہوں نے مثبت کردار ادا کرنے اور غیر جانبدار رہتے ہوئے کام کرنے کے بجائے کسی ایک فریق کی حمایت کو بہتر جانتے ہوئے موقف اختیار کیا اور آج ایک مرتبہ پھر وہ اسی راستے پر ہیں۔ بہرحال یہی وہ سیاسی سوچ ہے جس نے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا کیا ہے، یہی وہ سیاسی طرز عمل ہے جس کی وجہ سے انتشار بھی ہے اور لوگوں میں نفرت بھی پھیل رہی ہے۔ اصولی طور پر انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد صدر مملکت کو آئین پاکستان کے مطابق جلد از جلد نئی حکومت کے قیام میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ منتخب حکومت آئے اور پاکستان کے کروڑوں لوگوں کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے کام کرے۔ پاکستان کو شدید معاشی مشکلات کا سامنا ہے، آئی ایم ایف سے معاہدے سمیت دیگر اہم معاملات پر دن رات کام کی ضرورت ہے ان حالات اقتدار کی منتقلی کا عمل مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی صدر مملکت ہر وقت چاہتے ہیں کہ ملک میں ہر وقت بحرانی کیفیت ہو اور فائلیں ایک سے دوسری جگہ اور دفتروں کے چکر لگاتی رہیں۔ کاش کہ ہمارے سیاستدان یہ سیکھ جائیں کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکن، عہدیدار بعد میں اور پاکستانی پہلے ہیں، ہماری مشکلات اس وقت تک کم نہیں ہوں گی، مسائل بھی اس وقت تک حل نہیں ہوں گے جب تک ہم سب سے پہلے پاکستانی نہیں بنیں گے۔ دو ہزار چوبیس میں بھی ہم پر صوبائی رنگ، علاقائی رنگ، لسانیت اور سیاسی رنگ غالب ہے اتنے رنگوں میں پاکستانیت کا رنگ تو کہیں گم ہو چکا ہے۔ بہرحال کاش صدر مملکت بھی سب سے پہلے ایک پاکستانی کی حیثیت سے اپنا کردار نبھاتے تو اچھا ہوتا۔
جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کو اسٹیبلشمنٹ کو نشانے پر رکھا ہے۔ مولانا فرماتے ہیں اگر یہ سمجھتے ہیں کہ دھاندلی نہیں کی تو پھر نو مئی کا بیانیہ دفن ہو گیا، ہماری پوزیشن واضح ہے ہم کسی حکومت میں شامل نہیں ہونا چاہتے، ان سے ملک نہیں چلے گا، نظام گر جائے گا، اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے اسمبلیاں بھی ان کے مطابق ہوں اور لوگ بھی، عام انتخابات 2018 اور 2024 کی دھاندلی ایک ہی جیسی ہے، عوام کا نمائندہ اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ نہیں ہونا چاہیے۔ دو ہزار اٹھارہ میں بھی کہتے تھے دھاندلی ہوئی آج بھی کہہ رہے ہیں دھاندلی ہوئی ہے۔ آنے والے دنوں میں بتاؤں گا سسٹم کے اندر رہنے والے روئیں گے، ساری زندگی الیکشن لڑے ہیں داڑھی الیکشن میں سفید ہوئی ہے۔"
ہو سکتا ہے مولانا فضل الرحمٰن کی دوست سیاسی جماعتوں نے ان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا نہ کیا ہو جس وجہ سے انہیں انتخابات دھاندلی زدہ لگ رہے ہیں یا نتائج مولانا کی مرضی کے نہ ہوں یا ہو سکتا ہے کہ عوام نے انہیں منتخب کرنے کے بجائے کسی اور طرف دیکھا ہو۔ صرف دھاندلی کا کہہ دینا اور سارا ملبہ دھاندلی پر ڈال دینا ہی تو مناسب نہیں ہے۔ مولانا یہ خیال بھی رکھتے ہیں کہ انتخابات میں ان کی ناکامی میں بیرونی طاقتوں کا حصہ بھی شامل ہے۔ یعنی جمعیت علماء اسلام سے عالمی طاقتیں بھی خوفزدہ ہیں۔ اگر یہی بات ہے تو پھر کیا جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی مذہبی جماعتیں بھی یہی موقف اختیار کر سکتی ہیں۔ اگر غیر ملکی ہاتھ انتخابی نتائج میں ملوث ہے تو پھر اس سے پہلے جب جب مولانا کی جماعت حکومت کا حصہ رہی ہے اس وقت عالمی طاقتوں کی مرضی و منشاء سے جمعیت علماء اسلام حکومت کا حصہ بنتی رہی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ "گل کوئی ہور ایہہ" بہرحال مولانا فضل الرحمٰن کے پاس مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سوا بھی سیاسی راستہ تھا وہ اس راستے پر بھی چل سکتے تھے لیکن اچانک راہیں جدا کر گئے ہیں تو پھر یہ بھی کہا جا سکتا ہے " دور دور بیٹھے ہو ضرور کوئی بات ہے" دیکھیں مولانا کب اصل بات بتاتے ہیں جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ نئی حکومت نہیں چل پائے گی، گر جائے گی، کیا یہ پاکستان کے لیے بہتر ہے یا نہیں۔ اگر مولانا نے سیاست میں بال سفید کر لیے ہیں تو اس ملک کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور یہ کام حکومت سے باہر رہ کر بھی ہو سکتا ہے اور شاید زیادہ بہتر ہو سکتا ہے۔ مولانا باہر بیٹھ کر حکومت گرنے کا نظارہ کرنے کے بجائے جمہوریت کو مضبوط بنانے میں حصہ ڈالیں۔

ای پیپر دی نیشن