صحتیاب مستقبل کی راہ میں ٹرانس فیٹس کا مقابلہ


فرح اطہر
مصنف پنجاب فوڈ اتھارٹی میں معیارات اور ایکریڈیشن کی ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔

تحقیق کی بنیاد پر ٹرانس فیٹ ایک طویل عرصے سے  صحت عامہ کے لیے ایک بڑا خطرہ مانا جاتا ہے۔ صنعتی طور پر تیار کردہ ٹرانس فیٹ کا قلبی امراض، ذیابیطس، الزائمر کی بیماری اور صحت کے دیگر سنگین مسائل سے براہ راست تعلق ہے۔ یہ غیر صحت بخش چکنائیاں، جو اکثر جزوی طور پر ہائیڈروجنیٹڈ تیلوں میں پائی جاتی ہے، جسم میں نقصان دہ کولیسٹرول کی سطح کو بڑھاتی اور اچھے کولیسٹرول کی سطح کو کم کرتی ہے۔ اس کے لیے، عالمی ادارہ صحت نے دنیا بھر کے خوراکی ذرائعوں سے صنعتی طور پر تیار کردہ ٹرانس فیٹ کے خاتمے کے لیے 2023 کی ڈیڈ لاین مقرر کی تھی۔ تاہم، ڈیڈ لائن گزرنے کے باوجود پاکستان اس عالمی مطالبے کو پوری طرح سے لاگو نہ کر سکا۔ 
پاکستان نے 2023 میں، ملک میں ٹرانس فیٹ کو کھانے کے مخصوص ذرائعوں میں ریگولیٹ کیا۔ ان میں بناسپتی گھی، کوکنگ آئل، بیکری کے سامان اور بیکری شارٹننگ شامل تھے۔ تاہم، سٹریٹ فوڈ، ڈیری مصنوعات اور الٹرا پراسیسڈ خوردنی اشیاء  ابھی بھی اس ضابطے سے باہر ہیں۔ پاستا، نوڈلز، چپس، آئس کریم، چاکلیٹ، جلیبی، سموسے، پکوڑے وغیرہ سمیت عام کھائی جانے والی اشیاء میں ٹرانس فیٹس کی مقدار ابھی بھی تشویشناک حد تک زیادہ ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی ڈیڈ لائن کو پورا نہ کرنے کے نتائج سنگین ہیں۔ صنعتی طور پر تیار کردہ ٹرانس فیٹ  کو بروقت کم کرنے اور بالآخر ختم کرنے میں ناکامی لاکھوں پاکستانیوں کی صحت کو خطرے میں ڈال رہی ہے، جو ممکنہ طور پر قلبی امراض اور اس سے متعلقہ صحت کی پیچیدگیوں کے پہلے سے ہی موجود بڑے بوجھ میں اضافے کا باعث بنے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ان امراض کی روک تھام اور علاج کی اقتصادی لاگت بھی پہلے سے زیادہ بڑھنے کا خطرہ بھی ہے۔
ان حقائق کے پیش نظر، پاکستان کے لیے لازمی ہے کہ بغیر کسی تاخیر کے تمام کھانوں کے لیے ریگولیٹری فریم ورک کو مرتب کرے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ چونکہ صحت عامہ کے کسی بھی اقدام کی کامیابی کا انحصار حکومتی اداروں، سول سوسائٹی، صارفین اور فوڈ انڈسٹری کے درمیان تعاون پر ہوتا ہے، اس لیے حکومت کو اہم متعلقین کے ساتھ مل کرتمام کھانے پینے کی اشیاء￿  کو ریگولیٹ کرنے میں فعال کردار ادا کرنا چاہیئے اور iTFA کی حد کل چربی یا تیل میں 2 فیصد مقرر کرنے کو یقینی بنائے۔
بین الاقوامی تعاون مؤثر حکمت عملیوں کو نافذ کرنے میں قیمتی مدد فراہم کر سکتا ہے۔ ایسے ممالک جنہوں نے بہترین پریکٹس کی پالیسیاں اپنائیں اور آئی ٹی ایف اے کو کامیابی سے ختم کیا،  اْن کے تجربے سے سیکھ کر پاکستان میں  صنعتی طور پر تیار کردہ ٹرانس فیٹ کے ختمے کیعمل کو تیز کیا جا سکتا ہے۔ اِن میں مصر، فلپائن، ڈنمارک، برازیل، ارجنٹائن، ہندوستان اور سعودی عرب جیسی ممالک کا ذکر لازمی ہے۔ 
سول سوسائٹی کی تنظیمیں مزید سخت ضابطوں پہ زور دے رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، وزارتِ قومی صحت اور گلوبل ہیلتھ ایڈوکیسی انکیوبیٹر GHAI کی سرپرستی میں، پاکستان یوتھ چینج ایڈوکیٹس (PYCA)   ٹرانسفارم پاکستان کے ذریعے صنعتی طور پر تیار کردہ ٹرانس فیٹ کی ریگولیشن کا مطالبہ کر رہی ہے۔ سول سوسائٹی کے دیگر ادارے جیسے کہ  سنٹر فار پیس اینڈ ڈیویلپمنٹ انیشیٹیو (CPDI)اور ہارٹ فائل بھی اِس  مہم کا حصہ ہیں۔ یقیںاً، غیر سرکاری تنظیمیں حکومت کے  ساتھ مل کر جامع  پالیسیوں کو اپنانے کے لیے تکنیکی مدد فراہم کر سکتی ہیں لیکن ان پالیسیوں کو  حتمی جامع پہنانے کی  ذمہ داری حکومت ہی کی ہوگی۔
کیونکہ ہم 2024 میں داخل ہو چکے ہیں اِس لیے مزید تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی ڈیڈ لائن ایک واضح مینڈیٹ ہے، اور اسے پورا کرنا صرف پالیسی کی حد تک اہم نہیں بلکہ پاکستانی شہریوں کی صحت اور بہبود کو ترجیح دینے کے لیے انتہائی اہم ہے۔

ای پیپر دی نیشن